شیخ محمد عبداللہ، ریاست جموں کشمیر کا مقبول ترین سیاسی رہنما

شئر کریں

تحریر: شمس الرحمن

ریاست جموں کشمیر میں جدید سیاسی افکار و نظریات کو لانے ، پھیلانے اور ان کو ایک عوامی سیاسی تحریک میں ڈھالنے کے عمل میں کلیدی کردار کرنے والی چھ ریاستی شخصیات میں آخری نام شیخ محمد عبداللہ کا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جدید عوامی سیاست میں مرکزی ترین کردار شیخ محمد عبداللہ کا رہا ہے اور وہ ریاست جموں کشمیر میں خود سے پہلے اور بعد میں حتیٰ کہ آج تک کہ مقبول ترین رہے ہیں تو بے جا نہیں ہو گا۔ مقبول ترین کا مطلب لازمی طور پر درست ترین یا معقول ترین نہیں ہوتا۔ تاہم اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نہ تو شیخ عبداللہ سے پہلے کوئی ایسا رہنما آیا اور نہ بعد میں جس کو ریاست جموں کشمیر میں اتنی مقبولیت ملی ہو جتنی شیخ عبداللہ کو۔ اگرچہ سردار بدھ سنگھ بھی اس لحاظ سے ریاست کے ایک محترم رہنام تھے کہ ان کو سب کمیونٹیوں اور علاقوں میں عزت اور معتبریت ملی لیکن سیاسی مقبولیت میرے خیال میں شیخ عبداللہ جتنی آج تک کسی کو بھی نہیں ملی۔ شیخ صاحب کی مقبولیت کا وسیع کرنے کی ایک اضافی وجہ ان کا برطانوی ہند کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرنے والوں کے ساتھ قریبی تعلق واسطہ بھی تھا جن میں گاندھی، نہرو، پٹیل، آزاد اور غفار خان جیسے موثر ، روشن خیال اور ترقی پسند رہنما شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کو پنڈت پریم ناتھ بزاز اور سردار بدھ سنگھ نے ورغلا کر ‘ سیکولر’ اور ‘ ترقی پسند’ بنا دیا تو وہ شیخ عبداللہ کو برطانوی ہند میں سیکولر اور ترقی پسند سیاست کے مرکزی کرداروں تک حاصل رسائی کو بھول جاتے ہیں یا اس سے آگاہ نہیں ہوتے۔
خیر شیخ محمد عبداللہ 05 دسمبر 1905 کو سری نگر کے مضافات میں واقع گاؤں / محلے سورہ میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے جن کی معاش کا ذریعہ کئی نسلوں سے شال بافی تھا۔ ان کے والد شیخ محمد ابراہیم اپنے اس سب سے چھوٹے بیٹے کی پیدائش سے دو ماہ ( کہیں دو ہفتے لکھا ہے) قبل وفات پا گئے۔ یوں بچوں کی پرورش کی ذمہ داری ان کی والدہ محترمہ اور بڑے بھائیوں نے کی۔
ابتدائی تعلیم روایت و رواج کے مطابق مقامی مکتب / مدرسے سے حاصل کی ۔ یہاں قران مجید کے ساتھ ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی زبانیں اور داستان و گلستان سعدی اور پادشاہ نامہ پڑھنا سیکھا۔ پرائمری تعلیم کے لیے انجمن نصرت اسلام میں بھیجا گیا لیکن یہاں تعلیم کا معیار اچھا نہ ہونے کی وجہ سے بچے کو وسران ناگ سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ وہاں سے پرائمری پاس کرنے کے بعد ہائی سکول دلاور باگ سے میٹرک یعنی سیکنڈری سکول کا امتحان پاس کیا۔ شیخ عبداللہ کے گھر سے یہ سکول دس میل کے فاصلے پر تھا جہاں وہ پیدل جاتے تھے۔ پنڈت پریم ناتھ بزاز بھی اس ہی سکول میں پڑھے تھے ۔ اس کے بعد شیخ عبداللہ نے بھی سری پرتاب کالج سری نگر میں داخلہ لیا ۔ نوجوان شیخ ڈاکٹر بننے کا خواہشمند تھا لیکن میڈیکل میں نہ جا سکا۔ عام لکھا ہے حالات ساز گار نہیں تھے تاہم یہ بھی لکھا ہے کہ سری پرتاب کالج کے بعد ان کو ‘ جنرل سائنس’ کے مضامین پڑھنے کے لیے پرنس آف ویلز کالج جموں میں داخلہ نہ ملا ےتو وہ اسلامیہ کالج لاہور چلے گئے جہاں سے ڈگری مکمل کرنے کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اکچر مقامات پر لکھا ہے کہ کیمسٹری میں ایم اے کیا تھا لیکن بھارتی پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں لکھا ہے کہ فزکس میں ایم اے کیا تھا۔ بہرحال واپس سری نگر آکر انہیں شہر کے ایک ہائی سکول میں ساٹھ روپے ماہوار پر جونئیر ٹیچر کی نوکری ہی مل سکی ۔

جدید عوامی سیاسی جدوجہد کا سفر
شیخ محمد عبداللہ کے جدید سیاسی راہوں پر سفر کا آغاز سترہ سال کی عمر میں اسلامیہ کالج کے سابق طلباء کی انجمن کا رکن بننے کے ساتھ شروع ہو گیا تھا جو غلام احمد عشائی نے 1922 میں قائم کی تھی۔ اس وقت شیخ عبداللہ ابھی کالج میں پڑھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست میں ابھی جدید سیاسی انجمنیں قائم کرنے کی آجازت نہیں تھی اس لیے ریاست کے مختلف خطوں خاص طور سے جموں اور کشمیر میں مذاہب یا برادریوں کے نام پر فلاحی اور اصلاحی انجمنیں قائم کی جاتی تھیں۔ وادی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں اس کے علاوہ ‘ ریڈنگ روم’ کے نام سے انجمنیں قائم کی جاتی تھیں جہاں برطانوی ہند سے فارغ التحصیل جدید تعلیم اور نظریات سے لیس طلباء اپنے لیے روزگار کے مواقعوں کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی نظریات، تحریکوں اور ریاستی حالات و امکانات پر معلومات کا تبادلہ اور بحث مباحثہ کرتے تھے۔ روس کا انقلاب جو ابھی ابھی برپا ہوا تھا ان ‘ مطالعہ کمروں’ میں ظاہر ہے کہ وہ بھی کشمیر کے ان اولین سیاسی کارکنان کے لیے سیاسی بحث مباحثے اور تحریک پانے کا ذتیعہ اور موضوع رہا ہو گا ۔ اس لحاظ سے سری نگر ریاست کے دیگر خطوں کے مقابلے میں جدید سیاسی نظریات اور جدوجہد کے میدان میں آگے تھا جہاں 1920 کی دھائی میں بحث مباحثے کا ماحول پرورش پا رہا تھا۔ ہندوستان جا کر ظاہر ہے کہ ان کے سیاسی شعور کا سفر جار رہا اور اس کو مزید جلا ملی۔
ریاستی مشینری کے ساتھ شیخ عبداللہ کا پہلا واسطہ اکتوبر 1930 میں پڑا جب فتح کدل میں قائم ہونے والی ریڈنگ روم پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انہوں نے ہری سنگھ سرکار کو سرکاری ملازمت سے متعلق شرائط میں ترامیم کرنے کے لیے خط لکھا۔ جواب میں انہیں آکر ریجنسی کونسل کے سامنے اپنے خیالات و مطالبات رکھنے کی دعوت دی گئی۔ یہ ریجنسی کونسل دراصل مہاراجہ ہری سنگھ کی غیر موجودگی میں اس کی نمائندہ تھی۔ مہاراجہ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لنڈن گیا ہوا تھا جہاں اس نے ہندوستان کے لیے اندرونی طور پر خود مختار ریاستوں کے وفاق کا نظریہ پیش کیا۔ ریجنسی کونسل کا سربراہ ریاست کا وزیر اعظم جارج ایڈورڈ ویکفیلڈ تھا جو 1921 میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور سے ہری سنگھ کے ساتھ منسلک تھا ۔ اس کے ہری سنگھ کے ساتھ بہت ہی قریبی تعلقات تھے ۔ درحقیقت ہری سنگھ کا ‘ مینٹور’ اتالیق یا استاد بھی تھا ۔ شیخ عبداللہ نے ریجنسی کونسل کے سامنے مطالبات اچھی طرح سے پیش کیے ۔ مطالبات تو منظور نہ ہوئے لیکن کونسل کے ارکان بشمول وزیر اعظم ویکفیلڈ پر اچھا اثر چھوڑا جو ظاہر ہے آگے چل کر عوامی سیاست کے میدان میں ان کا نام آگے بڑھانے میں کام آیا۔
اگلے سال تک شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھی ریڈنگ روم سے باہر سری نگر میں ایک جدید سیاسی قوت میں ڈھل چکے تھے۔ یہ سیاسی قوت صرف مہاراجہ نظام کے لیے ہی نہیں بلکہ وادی میں اس نظام میں حصہ دار اس لیے اس کے وفادار مسلمان زعما اور جاگیرداروں کے لیے بھی خطرہ تھی۔ بادشاہ ، علماء اور جاگیرداروں کا اتحاد ثلاثہ جو مشترک مفادات پر قائم تھا لرزنے لگا تھا۔ لیکن ریڈنگ روم والے نوجوانوں بشمول شیخ عبداللہ نے مساجد میں جلسے کر کے نئی باتیں عوام کو بتانا شروع کر دیں اور عوام نے ان کو کندھوں پر بٹھانا شروع کر دیا تو اکثر مسلمان علماء ، زعما، شرفا اور جاگیرداروں نے بھانپ لیا کہ یہ جو دریا جو جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے۔
تاہم شخصی راج سنگھاسن کی چوٹی پر بیٹھے مہاراجہ ہری سنگھ صاحب اور ریاست بھر میں پھیلے ان کے کارندے زمین پر اس عظیم تبدیلی کو دیکھ اور محسوس نہ کر سکے۔ کیا انگریز ویر اعظم ویکفیلڈ کو بھی زمین پر تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال نطر نہیں آ رہی تھی؟ یہ بہت اہم سوال ہے لیکن اس پر یہاں بحث کی گنجائش نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شیخ عبداللہ، ان کے ساتھیوں اور ریاست کے مسلمانوں پر آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اثر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ بلکہ کشمیر میں ابھرنے والی جدید سیاست کو ہندوستان میں اس سیاست کے مختلف رنگوں اور پرچارکوں سے الگ کر کے دیکھنا ممکن ہی نہیں۔
21 جون 1931 کا روز ریاست جموں کشمیر میں جدید سیاست کی حقیقی عوامی بننے کا دن قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ منظر ریاست کے کسی شہر نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ کئی ہزار کے مجمعے میں سری نگر بلکہ صوبہ کشمیر کی نئی اور پرانی نسلیں اور نمائندہ آوازیں ایک ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ریڈنگ روم والے غلام احمد عیشائی حاضرین کو بتا رہے تھے کہ مہاراجہ نے شکایات سننے کی حامی بھر لی ہے اور یہ شکایت پیش کرنے کے لیے یہاں نمائندے نامزد کر کے آپ کے سامنے آپ سے منظوری کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ عام آدمی کی منظوری کے لیے ۔ ان نمائندوں میں شیخ عبداللہ بھی شامل تھے جو اس وقت تک وادی کی مقبول اور موثر ترین شخصیات میں شامل ہو چکے تھے۔ اگرچہ اس جلسے میں انگریز افسر کے ملازم قدیر خان کی تقریر نے عوامی سیاست کا رخ پر امن راہوں سے قتل و غارت اور عوامی حقوق کے مطالبات سے ہندومسلمان مسائل کی طرف موڑ دیا لیکن شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کی عوامی سیاست کی وسعت ، گہرائی اور اثر میں اضافہ جارہ رہا۔
16 اکتوبر کو 1932 ریاست جموں کشمیر کی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت قائم ہوئی ۔ شیخ عبداللہ اس کے بانی صدر منتخب ہوئے اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری۔ اس وقت تک سرکاری ایوانوں میں بھی عوامی دباؤ اور گلانسی کمشن کی سفارشات کے مطابق اصلاحات کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ تاہم مہاراجہ طاقت کا کا منبع خود سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا۔
شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے اندر شروع دن سے ہی اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ دلیل رکھتے رہے کہ ریاست میں نہ تو غریب اور استحصال ذدہ عوام سب کے سب مسلمان ہیں اور نہ ہی استحصال کرنے والے سب غیر مسلم۔ اس لیے ہماری سیاست میں سب کو سمونے کی گنجائش ہونی چاہیے۔ تاہم اس دلیل کی جیت 1939 میں جا کر ہوئی جس کے دوران یقیناً شیخ عبداللہ پر برطانوی ہند میں سیکولر و ترقی پسند سیاستدانوں اور ریاست کے اندر پریم ناتھ بزاز اور سردار بدھ سنگھ جیسے لوگوں کے ساتھ مباحثوں کے اثرات پڑے تاہم جس طرح سے اس کو اسلامی سیاسی نظریات کی روشنی میں ایک سازش کے طور پر پیش جاتا ہے میرے خیال میں ایسا ہر گز نہیں تھا۔ میرپور میں مسلم کانفرنس کے دوسرے سالانہ کنونشن میں شیخ عبداللہ کی تقریر پڑھ کر اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ شرع سے ہی ایک سیکولر قومی جماعت اور سیاست کے حامی تھے لیکن ایک سیاستدان ہونے کی حیثیت سے وہ عوام کو ساتھ لے کر چلنے کی اہمیت سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔
پنڈت پریم ناتھ بزاز کی طرح شیخ محمد عبداللہ کی عوامی سیاست کی تعمیر اور شکل پزیری میں بھی تین جدید نظریات ، نیشنل ازم/ سیکولرازم اور سوشلزم نے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ تاہم شیخ عبداللہ کے لیے ان سب جدید نظریات کو اسلام کی ٹوکری میں ڈال کر عوام کے سامنے پیش کرنا سیاسی طور پر گھاٹے کا نہیں بلکہ منافع کا سودا تھا کیونکہ ریاست جموں کشمیر میں موجود نظام میں مسلمان اکثریت میں تھے اور جاگیردارانہ اور شخصی راج میں استحصالی پالیسیوں کا وہی سب سے زیادہ شکار اور نشانہ تھے۔ یہ سہولت پریم ناتھ بزاز کو حاصل نہیں تھی کیونکہ اس کی کمیونٹی چھوٹی سی تھی اور موجودہ نظام اس کے لیے فائدہ مند بلکہ بہت ہی فائندہ مند تھا۔ میرے خیال میں ایک اور بڑا فرق یہ بھی تھا کہ شیخ عبداللہ بنیادی طور پر سیاستدان تھے جب کہ پریم ناتھ بزاز اصلوں یعنی بنیادی طور پر ” دانشور اور نظریہ دان” تھے ۔ سیاستدان کو موجود حالات کی سمجھ بوجھ کی بنیاد پر آنے والے حالات کو بھانپ کر عملی حکمت عملی واضح کرکے اس پر عمل کرنا ہوتا ہے جب کہ دانشور سیاستدان کے عمل کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے اس پر رائے بنا کر اپنے دماغ میں موجود نظریے کی آبیاری کرتا ہے ۔
جیسا کہ اس مضمون میں دیکھا جا سکتا ہے شیخ عبداللہ کے برطانوی ہند سے ڈگری لے کر واپس آنے کے بعد سے ان کا اور کشمیر کی جدید سیاست ارتقا ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔

عروج و زوال
نیشنل کانفرنس اور بعد ازاں نیا کشمیر ریاست جموں کشمیر میں عوامی سیاست اور شیخ عبداللہ کی سیاست کا نقطہ عروج تھا۔ ان کو اس قدر مقبولیت حاصل تھی کہ ان کی کویٹ کشمیر موومنٹ جو کہ درحقیقت صرف وادی کی تحریک تھی جموں کے رہنماؤں بشمول بدھ سنگھ اور غلام عباس وغیرہ نے بھی اس کی کھل کر حمایت کی اور گرفتار بھی ہوئے۔ میں کیوں کہتا ہوں کہ یہ وادی کی تحریک تھی؟ کیونکہ اس دوران جو یاداشت ( میمورینڈم) کیبنٹ مشن کو پیش کیا گیا اس میں کشمیر کی تعریف یوں کہ گئی کہ یہ ایک جغرافیائی خطہ ہے جس کی ایک زبان اور ایک ثقافت ہے۔ ظاہر ہے یہ وادی کشمیر کی تعریف تھی اس ریاست جموں کشمیر کی نہیں جس کے لیے دو سال قبل نیشنل کانفرنس نے ‘ نیا کشمیر ‘ منشور پیش کیا تھا جس میں ریاست کو ایک کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی ریاست تسلیم کیا گیا تھا۔ میرے خیال میں یہاں سے ریاست کی وحدت، آزادی اور عوامی جمہوریت کی سیاست کا زوال شروع ہو گیا۔
ریاست کی سیاست مختلف دھاروں میں اور مختلف سمتوں میں بہہ نکلی۔ مسلم کانفرنس مسلم لیگ کی طرف اور نیشنل کانفرنس انڈین کانگرس کی طرف۔ بتدریج شیخ عبداللہ کھل کر ہندوستان کے ساتھ اندرونی خود مختاری کے بدلے الحاق کے راستے پر چل نکلے اور اکتوبر 1947 میں قائم مقام وزیر اعظم بن گئے ۔پھر منتخب وزیر اعظم جو وہ 1953 تک رہے۔ اس دوران انہوں نے نیشنل کانفرنس کے ”نیا کشمیر” منشور کے مطابق جاگیرداری نظام کو ختم کر دیا اور مفت تعلیم اور صحت اور روزگار کے لیے اہم اقدامات کیے۔ تاہم کشمیر کی اندرونی خود مختاری پر ہندوستانی سیاستدانوں کی طرف سے تجاوزات کے خلاف ان میں ردعمل بڑھتا گیا ۔ حتیٰ کہ 1953 میں ان کو خفیہ طور پر امریکہ سے مل کر خود مختار کشمیر کے لیے ساز باز کرنے کے شبے میں ان کے دوست نہرو ، وزیر اعظم ہندوستان کے حکم پر وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش کر کے قید میں ڈال دیا گیا۔ عبداللہ ، افضل بیگ اور دو درجن کے قریب دوسرے سیاسی رہنماؤں کے خلاف سازش کا مقدمہ در کر لیا گیا ۔ ان کی رہائی کے لیے محاذ رائے شماری کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اپریل 1964 میں نہرو سرکار کی طرف سے شیخ عبدللہ کو رہا کر دیا گیا اور نہرو نے ان کے ساتھ صلح بھی کر لی۔ ریاست واپسی پر شیخ صاحب کا بہت بڑا استقبال بھی ہوا۔ نہرو نے شیخ صاحب کو یہ کہہ کر پاکستان بھیجا کہ ایوب خان سے مل کر انہیں بھارت آ کر کشمیر کے حتمی حل پر بات چیت کے لیے آمادہ کریں۔ ایوب خان نے اتفاق کیا کہ وہ جون میں مذاکرات کے لیے بھارت آئیں گے۔ لیکن ابھی شیخ عبداللہ پاکستان میں ہی تھے کہ 27 مئی 1964 کو نہرو اگلے جہان سدھار گئے۔ اس کے بعد شیخ عبداللہ حج کے لیے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ گئے اور وہاں سے الجزائر و برطانیہ اور کچھ دیگر ممالک میں بھی گئے جہاں انہوں نے ایک بار پھر کشمیر کی آزادی اور رائے شماری کی باتیں کیں۔ واپسی پر ان کو بھارت سرکار نے پھر سے نظر بند کر دیا ۔ اس دوران کی ان کی جماعت نیشنل کانفرنس بتدریج ریاستی اسمبلی سے باہر ہو گئی۔ محاز رائے شماری پر پابندی لگا دی گئی۔ 1972 کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس ایک بھی حلقہ نہ جیت سکی۔ ادھر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی شکست اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے جن کا نتیجہ 1974 میں اندرا عبداللہ ایکارڈ کی شکل میں سامنے آیا ۔ اس میں سمجھوتہ اس بات پر ہوا تھا کہ رائے شماری ختم لیکن اندرونی خود مختاری یعنی 1953 والی صورت حال بحال اور شیخ عبداللہ بھارتی آئین کے تحت وزیر اعلی ٰ کا عہدہ قبول کریں گے۔ اسمبلی میں کانگرس کے اکسٹھ 61 ارکان کی حمایت سے شیخ عبداللہ ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے جبکہ نیشنل کانفرنس کی ایک سیٹ بھی نہیں تھی ۔ دوسال بعد کانگرس نے حمایت واپس لے لی تو اسمبلی معطل ہو گئی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا گیا جو دوسال بعد 1977 میں منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے 75 میں سے 47 نشتیں جیت کر اکثریت حاصل کی جبکہ کانگرس کو 11 اور جنتا پارٹی کو 13 سیٹیں ملیں۔ جماعت اسلامی جن کی سابقہ اسمبلی میں 5 نشستیں تھیں صرف ایک پر ہی جیت سکی۔
شیخ عبداللہ 1982 میں اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو وزارت اعلٰی سونپنے تک وزیر اعلیٰ رہے۔ یوں نصف صدی سے طویل عرصے تک تمام قوم پرستانہ ، سوشلسٹ اور سیکولر نظریات کی سیاست اور مہاراجہ کو شکست دینے بلکہ کشمیر کیا ریاست چھوڑ دینے میں کامیابی حاصل کرنے اور کم از کم کئی بار کی اسیریوں اور نظر بندیوں کے بعد بھی شیخ عبداللہ مہاراجہ نظام کی موروثیت اپنے اندر سے ختم نہ کر سکے۔
آج ان کی جماعت ایک بار پھر اقتدار میں ہے۔ ان کا پوتا وزیر اعلیٰ ہے۔ لیکن شیخ عبداللہ کی وفات کے بعد وادی میں 13 جولائی 1987 کو ایک اور 1931 ہوا ۔ اس نے شیخ کی سیاست اور جماعت کو مہاراجہ ہری سنگھ کی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ۔ بلکہ اس سے بھی بد تر کیونکہ مہاراجہ ہرسنگھ کی قبر ( یادگار ) کو عوام کے حملوں سے بچانے کے لیے پہروں کا کبھی نہیں سُنا ۔

مصنف کے بارے میں

Shams Rehman
Shams Rehman

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *