پولیس آفیسرز اور مروجہ قانون
تحریر : خواجہ کبیر احمد
پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جو قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔ لیکن جب کوئی پولیس افسر خود کسی جرم، خاص طور پر قتل جیسے سنگین جرم میں ملوث پایا جائے، تو یہ نہ صرف عدالتی نظام بلکہ خود پولیس فورس کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ قانون کے مطابق اگر کسی پولیس افسر کے خلاف جوڈیشل انکوائری میں قتل کا الزام ثابت ہو جائے، تو اس کے خلاف مختلف قانونی اور محکمانہ اقدامات کیے جاتے ہیں قتل جیسے سنگین الزام کی صورت میں پولیس کے قواعد و ضوابط کے تحت ملزم افسر کو فوراً معطل کیا جاتا ہے۔ معطلی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب تک انکوائری اور عدالتی کارروائی مکمل نہیں ہو جاتی، وہ اپنے عہدے کا غلط استعمال نہ کر سکے اور تفتیش پر اثر انداز نہ ہو سکے۔جوڈیشل انکوائری کے بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنی داخلی تحقیقات بھی کر سکتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ آیا متعلقہ افسر نے کسی محکمانہ ضابطے یا قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر محکمے کی انکوائری میں بھی افسر کو قصوروار پایا جائے، تو اسے سخت محکمانہ سزائیں دی جا سکتی ہیں، جن میں نوکری سے برطرفی بھی شامل ہے۔اگر عدالت میں جرم ثابت ہو جاتا ہے، تو پولیس افسر کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کیا جاتا ہے۔ اگر محکمانہ انکوائری میں یہ ثابت ہو کہ افسر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا، ثبوت چھپائے، یا دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہا، تو محکمے کی جانب سے بھی اسے نوکری سے نکالا جا سکتا ہے، چاہے عدالت کا حتمی فیصلہ آنا باقی ہو۔جوڈیشل انکوائری کے بعد اگر چارج شیٹ دائر ہو جائے اور مقدمہ عدالت میں چلنے لگے، تو ایسا افسر پولیس فورس میں اپنی سروس برقرار نہیں رکھ سکتا۔ زیادہ تر معاملات میں وہ معطل ہی رہتا ہے جب تک عدالت اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہ دے۔ اگر عدالت اسے مجرم قرار دیدے، تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے، جس میں عمر قید یا سزائے موت بھی شامل ہے،اگر عدالت میں پولیس افسر کے خلاف جرم ثابت نہ ہو اور وہ بری ہو جائے، تو اصولی طور پر وہ اپنی ملازمت پر واپس آ سکتا ہے۔ تاہم، اس کا انحصار محکمانہ قوانین اور کیس کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات، اگرچہ عدالت سے بریت مل جاتی ہے، مگر محکمانہ انکوائری میں بدعنوانی یا غیر ذمہ داری ثابت ہو جائے تو بھی اسے بحال نہیں کیا جاتا۔جب کوئی پولیس آفیسر قتل جیسے سنگین جرم میں ملوث پایا جائے، تو یہ نہ صرف اس کی ذاتی بدنامی کا باعث بنتا ہے بلکہ پوری پولیس فورس کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ عوام کی نظر میں پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے، اور اگر اس ادارے کے افراد خود قانون توڑنے لگیں، تو لوگوں کا انصاف پر سے اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔ یہ صرف أن۔معاشروں میں ہوتا ہے جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو، چاہے وہ عام شہری ہو یا پولیس افسر۔ انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ پولیس فورس کی ساکھ برقرار رہے اور عوام کا نظامِ عدل پر اعتماد بحال رہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں بلکہ اس کے برعکس محکمہ خود نامزد ملزم کو تحفظ فراہم کرتا ہے جس کی مثالیں موجود ہیں اور پیش کی جا سکتی ہیں جیسے ( نعیم بٹ شہید کیس) ۔پولیس کا بنیادی فریضہ قانون کی بالادستی قائم رکھنا، جرائم کی روک تھام کرنا اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ تاہم، جب وہی محافظ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تحفظ دینے لگیں، تو یہ نہ صرف عدالتی نظام بلکہ معاشرتی انصاف کے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جب پولیس افسران اپنے ساتھیوں کے جرائم پر پردہ ڈالنے یا انہیں قانونی کارروائی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ ایک سنگین جرم اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہوتا ہے۔جو ہمارے ہاں عام ہے ۔ پولیس افسران اپنے ساتھیوں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنے یا انہیں قانونی کارروائی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اکثر پیشہ ورانہ بھائی چارے یا ادارہ جاتی وفاداری کے نام پر کیا جاتا ہے۔ جب یہ تحفظ کسی جرم کو چھپانے، ثبوت مٹانے، یا کسی مجرم افسر کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لیے دیا جا رہا ہو، تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔جہاں قانون کی بالا دستی ہو وہاں کسی بھی جرم کو چھپانے، ثبوت مٹانے، یا کسی ملزم کو گرفتاری سے بچانے والے پولیس افسران قانون کے تحت مجرم قرار دیے جاتے ہیں۔اگر کوئی افسر کسی دوسرے افسر کے جرم میں شریک ہوتا ہے یا اسے تحفظ دیتا ہے، تو وہ بھی مجرم تصور کیا جاتا ہے۔اگر کوئی افسر کسی جرم کی تفتیش میں رکاوٹ ڈالے، شواہد کو ضائع کرے یا عدالت میں غلط بیانی کرے، تو یہ ایک سنگین قانونی جرم ہے۔پولیس کو دیے گئے اختیارات عوامی خدمت کے لیے ہیں۔ اگر کوئی افسر ان اختیارات کو اپنے ساتھیوں کے جرم کو چھپانے کے لیے استعمال کرتا ہے، تو یہ ناانصافی اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔اگر کسی پولیس افسر کو تحفظ دینے کے بدلے میں کوئی مالی یا دیگر فائدہ حاصل کیا جا رہا ہو، تو یہ بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، اور اینٹی کرپشن قوانین کے تحت اس پر کارروائی کی۔جاتی ہے۔ پولیس کا ایک دوسرے کو تحفظ دینا معاشرتی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جب عام شہری دیکھتے ہیں کہ پولیس اپنے ساتھیوں کو قانون سے بچا رہی ہے، تو ان کا عدالتی نظام پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔مجرم پولیس افسران مزید بے خوف ہو کر جرم کرنے لگتے ہیں۔عدالتی نظام کمزور ہو جاتا ہے، اور مظلوم کو انصاف نہیں ملتا۔پولیس ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث افسران کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کرے، جس میں معطلی، برطرفی اور قانونی چارہ جوئی شامل ہو۔پولیس کے معاملات کی نگرانی کے لیے ایک آزاد عدالتی کمیشن ہونا چاہیے، جو پولیس کی غیر قانونی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور شکایات پر کارروائی کرے۔جو پولیس افسران اپنے ساتھیوں کے خلاف گواہی دینا چاہتے ہیں، انہیں ریاست کی طرف سے مکمل تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، تاکہ وہ بغیر کسی خوف کے انصاف کے حق میں کھڑے ہو سکیں۔پولیس ڈیپارٹمنٹ میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنایا جائے، اور اگر کوئی افسر کسی جرم میں ملوث ہو، تو اس کا فیصلہ عوامی سطح پر سنایا جائے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو۔پولیس فورس کا ایک دوسرے کو تحفظ دینا نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ اگر پولیس اہلکار خود جرم میں ملوث ہوں اور پھر اپنے ساتھیوں کو بچانے لگیں، تو یہ معاشرتی انصاف اور قانون کی بالادستی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ پولیس فورس کو حقیقی معنوں میں ایک ایماندار اور قابلِ اعتماد ادارہ بنایا جا سکے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ عام شہری ہو یا قانون نافذ کرنے والا ادارہ!
مصنف کے بارے میں

- خواجہ کبیر احمد برطانوی/بیلجیئن کشمیری صحافی ہیں اپنے تعلیمی دور سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ برطانیہ سے صحافت میں ڈگری یافتہ ہیں، وئب ٹی وی چینل جموں کشمیر ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز / ڈائریکٹر پبلک أفیئرز اور اینکر پرسن ہیں پرنٹ جرنلزم میں مختلف موضوعات پر قلم أٹھاتے ہیں ریاست جموں کشمیر پر فوکس کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے پرچارک ہیں
تازہ ترین خبروں
رائے04/08/2025یاسین ملک: آزادی کا علمبردار اور بھارتی جبر کا شکار
رائے04/03/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر: عوامی حقوق، حکومتی وعدے اور کریک ڈاؤن
خبریں03/28/2025ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردار
رائے03/28/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی – ایک غیر ضروری اقدام
ماشاءاللہ بہت خوب
قانون کی حکمرانی یا طاقتور کی حکمرانی؟
انصاف کسی بھی معاشرے کی وہ بنیاد ہے جس پر ایک مہذب ریاست کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ لیکن جب قانون خود چند طاقتور ہاتھوں میں قید ہو جائے، عدالتیں انصاف کے بجائے مفادات کی گنگا میں بہنے لگیں، اور پولیس جرم روکنے کے بجائے خود جرم کا حصہ بن جائے، تو کمزور کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں اور معاشرہ ظلم و استبداد کے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔
ہمارے نظامِ عدل و قانون کا المیہ یہ ہے کہ یہاں انصاف طاقتور کے گھر کی لونڈی بن چکا ہے۔ پولیس، عدالتیں، اور سیاسی اشرافیہ مل کر ایک ایسا جال بناتے ہیں جہاں کمزور ہمیشہ پھنس جاتا ہے اور طاقتور ہمیشہ بچ نکلتا ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدالتی دروازے غریب کے لیے بند اور سرمایہ دار، جاگیردار اور سیاستدان کے لیے کھلے ہیں۔
پولیس اور عدلیہ: بدعنوانی کا ناگوار گٹھ جوڑ
پولیس کی کرپشن محض چند اہلکاروں کی بددیانتی کا نام نہیں، بلکہ یہ پورے عدالتی اور سیاسی نظام کی پیداوار ہے۔ جب ایک طاقتور شخص کسی جرم میں ملوث ہوتا ہے، تو پولیس جان بوجھ کر یا تو ثبوت مٹانے میں لگ جاتی ہے، یا کیس کو اس انداز میں بناتی ہے کہ عدالت میں وہ زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ اس کے بعد عدالتیں یا تو تاخیری حربے استعمال کر کے مقدمے کو سالہا سال تک لٹکاتی ہیں یا پھر کسی قانونی نکتے کے بہانے مجرم کو بری کر دیتی ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پولیس اور عدلیہ دونوں ہی کرپٹ ہوں، تو انصاف کے دروازے کس کے لیے کھلیں گے؟ حقیقت یہی ہے کہ یہاں قانون کی کتابیں صرف کمزور کے لیے لکھی گئی ہیں، اور طاقتور کو ہمیشہ استثنیٰ حاصل رہا ہے۔
ناجائز سیاسی اثر و رسوخ: انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ
پولیس کا نظام اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتا جب تک اسے سیاسی غلامی سے آزاد نہیں کیا جاتا۔ بدقسمتی سے، ہمارے ہاں پولیس کا سب سے زیادہ استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ الیکشن ہوں یا احتجاج، سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے پولیس کا استعمال ایک معمول بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس میں وہی افسر ترقی پاتے ہیں جو حکمرانوں کے وفادار ہوتے ہیں، نہ کہ وہ جو قانون کے وفادار ہوں۔
جب حکومتی نمائندے خود کرپشن میں ملوث ہوں، تو وہ کیسے پولیس کو کرپشن سے روک سکتے ہیں؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس پر بات کرنے سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں کے پیچھے اکثر سیاستدانوں کی پشت پناہی ہوتی ہے، جو اپنے مفادات کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے مفاد کے مطابق چلاتے ہیں۔
محکموں کے باہمی تعلقات اور کرپشن کی جڑیں
کرپشن کا یہ کھیل صرف پولیس اور عدالت تک محدود نہیں۔ بیوروکریسی، نیب، ایف آئی اے، کسٹمز، اور دیگر حکومتی ادارے بھی اسی نظام کا حصہ ہیں۔ ہر محکمہ دوسرے محکمے کے اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، اور یوں سب ایک دوسرے کے رازوں کے محافظ بن جاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے کے اہلکار کے خلاف کارروائی اس لیے نہیں ہوتی، کیونکہ ہر کوئی کسی نہ کسی کرپشن میں ملوث ہے، اور سب جانتے ہیں کہ اگر ایک پر ہاتھ ڈالا گیا، تو دوسرا بھی بچ نہیں پائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی بڑے افسر، جج، یا سیاستدان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوتا ہے، تو وہ دوسرے اداروں کے ذریعے اپنا تحفظ کروا لیتے ہیں۔ اور اگر کبھی کوئی افسر ایمانداری دکھانے کی کوشش کرے، تو یا تو اسے معطل کر دیا جاتا ہے، یا کسی ایسی پوسٹنگ پر بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ بے اثر ہو جائے۔
کرپٹ مروجہ سیاسی نظام: سب برائیوں کی جڑ
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو کرپشن کو تحفظ دیتا ہے۔ سیاست کو عوام کی خدمت کا ذریعہ بنانے کے بجائے ذاتی کاروبار میں بدل دیا گیا ہے۔ انتخابات میں کروڑوں خرچ کر کے جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، وہ اپنے سرمائے کو کئی گنا بڑھانے کے لیے کرپٹ عناصر کے ساتھ سازباز کرتے ہیں۔ پولیس، عدلیہ، اور بیوروکریسی کو اپنے مفاد کے مطابق قابو میں رکھنے کے لیے قوانین میں ایسی ترامیم کی جاتی ہیں جو طاقتور کو مزید طاقتور اور کمزور کو مزید محکوم بنا دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں پولیس کی اصلاحات کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، مگر کبھی ان پر عمل نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر پولیس واقعی غیرجانبدار اور دیانتدار ہو جائے، تو سب سے پہلے یہی کرپٹ سیاستدان اور ان کے حواری قانون کی گرفت میں آئیں گے، اور یہی وہ چیز ہے جو وہ کبھی نہیں چاہتے۔
حل: ایک جامع اصلاحاتی پالیسی
یہ نظام اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک پوری ریاستی مشینری کو کرپٹ عناصر سے پاک نہیں کیا جاتا۔ اس کے لیے چند ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں:
1. پولیس کی مکمل آزادی
پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے، اور تقرریاں میرٹ پر ہوں، تاکہ پولیس صرف قانون کی پاسدار ہو، نہ کہ کسی حکمران کی۔
2. عدالتی اصلاحات
عدلیہ میں موجود کرپٹ ججوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور عدالتی فیصلوں میں شفافیت لائی جائے۔ مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے جدید عدالتی نظام متعارف کروایا جائے۔
3. سیاسی نظام میں اصلاحات
انتخابی عمل میں شفافیت یقینی بنائی جائے، اور سیاسی جماعتوں کے فنڈز کا آڈٹ کیا جائے، تاکہ سیاست کو کاروبار بننے سے روکا جا سکے۔
4. احتساب کا یکساں نظام
کرپشن کے خلاف کارروائی صرف کمزور طبقے تک محدود نہ ہو، بلکہ ہر شخص، خواہ وہ سیاستدان ہو، جج ہو، یا پولیس افسر، قانون کے تابع ہو۔
نتیجہ
اگر معاشرے میں واقعی قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے، تو انصاف کے پورے نظام کو ازسرِ نو تشکیل دینا ہوگا۔ پولیس کو سیاسی غلامی سے نکالنا ہوگا، عدلیہ کو مکمل آزاد اور خودمختار بنانا ہوگا، اور سیاستدانوں کو جوابدہ بنانا ہوگا۔ ورنہ یہ کھیل یونہی چلتا رہے گا، اور کمزور ہمیشہ انصاف کی راہ میں قربان ہوتا رہے گا۔ قانون وہی معتبر ہوتا ہے جو سب پر یکساں لاگو ہو، ورنہ وہ صرف طاقتور کے لیے ایک ڈھال اور کمزور کے لیے ایک تازیانہ بن کر رہ جاتا ہے۔
Mashallah bhut khub.you are a great journalist.
خواجہ کبیر کا مضمون ایک متاثر کن اور غور و فکر پر مبنی تحریر ہے جو ایک گہرے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ کشمیر میں پولیس فورس کے اندر اختیارات کے غلط استعمال اور نظامی چیلنجز کو اجاگر کرنے کی ان کی جرأت قابل تعریف ہے۔ نعیم بٹ کے کیس پر روشنی ڈال کر، وہ نہ صرف ایک خاص ناانصافی کی طرف توجہ دلاتے ہیں بلکہ ادارہ جاتی بدعنوانی اور عوامی اعتماد کی کمی کے وسیع اثرات کو بھی سامنے لاتے ہیں۔
ان کی تحریر میں قانون کی حکمرانی اور احتساب پر زور دینا بے حد اہم ہے۔ پولیس اہلکاروں کے جرائم کو چھپانے یا ان کی حفاظت کرنے کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل ایک ضروری اقدام کے طور پر سامنے آتی ہے۔ خواجہ کبیر نے ان پیچیدہ معاملات کو جس وضاحت اور یقین کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ واقعی قابل ستائش ہے۔
ایسی صحافت معاشرتی شعور اجاگر کرنے اور تبدیلی کا ذریعہ بننے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خواجہ کبیر کی سماجی مسائل کو اجاگر کرنے اور انصاف کے لئے مطالبہ کرنے کی کاوشیں تحریر کی طاقت کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان کے کام کو اس کے اثر اور ایمانداری کی بنا پر سراہا جانا چاہیے۔
راجہ مظفر
حال مقیم امریکہ
ماشأاللّٰہ، بہت عمدہ اور قابلِ غور و فکر تحریر ہے یہ محترم خواجہ کبیر احمد صاحب کی🌹❤️🌹
یہ تحریر نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت اور انتظامیہ کے ذمہ داران سے محکمۂ پولیس کی اصلاح کے لئے عملی اقدامات کی متقاضی ہے تا کہ اس آزاد کشمیر پولیس کو صحیح معنوں میں ریاستی عوام کی “مُحافظ فورس” بنایا اور اسے بدنامِ زمانہ “پنجاب پولیس” جیسی فورس بننے سے بچایا جا سکے_
پاکستان میں اگر کوئی پولیس اہلکار قتل کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اسے ملکی قوانین کے تحت سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ مجموعہ تعریزات پاکستان کی دفعہ 302، قتل کی سزا کے طور پر عمر قید یا سزا موت کا تعین کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کا مجرم ثابت ہونے والے پولیس اہلکار کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے، جس کی کم از کم سزا 25 سال ہو سکتی ہے۔ ان مجرمانہ سزاؤں کے علاوہ، قتل کے مرتکب پولیس اہلکار کو پولیس ایکٹ کے تحت بھی تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ایکٹ پولیس کے طرز عمل اور نظم و ضبط کو کنٹرول کرتا ہے، اور اگر کوئی پولیس اہلکار قتل جیسے سنگین جرم کا مرتکب پایا جاتا ہے، تو اسے ملازمت سے برخاستگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی ملازمت اور پنشن سمیت کسی بھی متعلقہ فائدہ سے محروم ہو جائے گا ۔ یہ عام قتل کے کیس سے زیادہ گھناؤنا جرم ہے کہ ایک قانون کا رکھوالا جس کا کام لوگوں کی جان کا تحفظ کرنا ہے وہ قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرے ۔