یاسین ملک: آزادی کا علمبردار اور بھارتی جبر کا شکار
تحریر : خواجہ کبیر احمد
یاسین ملک ایک ایسا نام ہے جو برصغیر کی تاریخ میں جدوجہد، قربانی، اور بے مثال حوصلے کی علامت بن چکا ہے۔ جموں کشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنے والا یہ شخص آج بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں بنیادی انسانی حقوق سے محروم ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہے۔ ایک ایسا رہنما جو ہمیشہ امن، مذاکرات اور سیاسی حل کا حامی رہا، آج بھارت جیسے “جمہوری” ملک کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکار ہے۔
یہ المیہ صرف یاسین ملک کا نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی امیدوں اور آواز کو دبانے کی سازش ہے۔یاسین ملک کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے مسلح جدوجہد کے دور سے گزر کر سیاسی راہ اپنائی، اور بھارت کے وزرائے اعظم سمیت اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی بات چیت کا مقصد ہمیشہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور باعزت حل رہا۔ انہوں نے بارہا کہا کہ کشمیری عوام اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے لڑ رہے ہیں، اور اس جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیرمنصفانہ عمل ہے۔
تاہم بھارت نے نہ صرف ان کے سیاسی مؤقف کو نظر انداز کیا بلکہ ان پر جھوٹے مقدمات قائم کر کے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔یاسین ملک کو جس کیس میں سزا دی گئی، وہ مبینہ دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق ہے، جس کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں۔ انہوں نے عدالت سے اپیل کی کہ انہیں بنفس نفیس اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہائی کورٹ نے ان کی اس درخواست کو منظور کیا، لیکن سپریم کورٹ نے اسے مسترد کر کے واضح پیغام دیا کہ وہ ایک منصفانہ ٹرائل کے حق میں نہیں ہے۔
یاسین ملک جیسے سیاسی قیدی کے ساتھ یہ رویہ اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یاسین ملک جیسے رہنما، جنہوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے حقوق کی بات کی، آج دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ کی متعلقہ ایجنسیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور کشمیریوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے، مگر عالمی برادری کی بے حسی اس ظلم کو مزید تقویت دے رہی ہے۔یاسین ملک صرف ایک فرد کا نام نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک جدوجہد اور ایک خواب کی تعبیر کا استعارہ ہے۔ وہ خواب جس میں کشمیری عوام خود کو ایک آزاد، باوقار اور خودمختار قوم کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کی رہائی نہ صرف انصاف کا تقاضا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات سے جڑی ہوئی ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ طاقت کے زور پر نہ آوازوں کو دبایا جا سکتا ہے، نہ ہی جذبات کو قید کیا جا سکتا ہے۔یاسین ملک کی حالتِ زار صرف بھارت کی اندرونی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی ناکامی بھی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، اور بھارت کو مجبور کریں کہ وہ یاسین ملک جیسے رہنماؤں کو منصفانہ ٹرائل اور بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے۔
یہ وقت ہے کہ عالمی برادری محض بیانات جاری کرنے سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ یقینأ یاسین ملک کی خاموشی، اس کی قید، اور اس کے ساتھ ہونے والا ظلم ایک روز ضرور عالمی ضمیر کو جھنجوڑے گا۔ وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام اپنے حقیقی رہنماؤں کے ہمراہ آزاد فضا میں سانس لیں گے، اور یاسین ملک کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ *دشمن کے مٹانے سے،مٹا ہوں نا مٹوں گا!*
مصنف کے بارے میں

- خواجہ کبیر احمد برطانوی/بیلجیئن کشمیری صحافی ہیں اپنے تعلیمی دور سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ برطانیہ سے صحافت میں ڈگری یافتہ ہیں، وئب ٹی وی چینل جموں کشمیر ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز / ڈائریکٹر پبلک أفیئرز اور اینکر پرسن ہیں پرنٹ جرنلزم میں مختلف موضوعات پر قلم أٹھاتے ہیں ریاست جموں کشمیر پر فوکس کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے پرچارک ہیں
تازہ ترین خبروں
رائے04/08/2025یاسین ملک: آزادی کا علمبردار اور بھارتی جبر کا شکار
رائے04/03/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر: عوامی حقوق، حکومتی وعدے اور کریک ڈاؤن
خبریں03/28/2025ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردار
رائے03/28/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی – ایک غیر ضروری اقدام