ایم پی او MPO ! نوآبادیاتی باقیات
تحقیق و تحریر : خواجہ کبیر احمد
Maintenance of Public Order (MPO)ایک ایسا آرڈینینس ہے جو حکومت کو کسی بھی شخص کو عوامی نظم و نسق کے مفاد میں گرفتار کرنے اور نظر بند کرنے کا اختیار دیتا ہے، خواہ اس کے خلاف کوئی باقاعدہ مقدمہ درج نہ ہو۔ اگرچہ اس قانون کا مقصد ملک میں امن و امان برقرار رکھنا بیان کیا جاتا ہے، لیکن تاریخی شواہد، عدالتی نظائر اور انسانی حقوق کے تناظر میں اس کا غلط استعمال واضح نظر آتا ہے۔ایم پی او جیسے قوانین کی جڑیں برطانوی نوآبادیاتی دور میں ملتی ہیں، جب انگریزوں نے برصغیر پر اپنی حکومت مضبوط رکھنے اور بغاوتوں کو دبانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے۔ 1860 میں متعارف کرایا گیا انڈین پینل کوڈ (IPC) اور 1861 کا پولیس ایکٹ انگریزوں کے لیے ایک مؤثر ذریعہ تھے، جن کے ذریعے وہ عوام کو قابو میں رکھتے تھے۔
رول آف لاء سوسائٹی (Rule of Law Society) کی رپورٹ کے مطابق، برطانوی راج کے دوران 1905 کے بنگال پارٹیشن مخالف مظاہروں، 1919 کے جلیانوالہ باغ قتلِ عام، اور 1942 کی “بھارت چھوڑو تحریک” جیسے عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے بھی ایسے ہی قوانین استعمال کیے گئے۔ 1947 میں آزادی کے بعد، پاکستان اور بھارت نے کئی نوآبادیاتی قوانین کو برقرار رکھا، جن میں MPO جیسے قوانین بھی شامل تھے۔ ایم پی او 1960 میں متعارف کرایا گیا اور اس کا مقصد عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا قرار دیا گیا۔ یہ قانون حکومت کو کسی بھی فرد کو صرف اس شبہ میں گرفتار کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
اس قانون کے تحت عام طور پر دو اہم دفعات استعمال ہوتی ہیں . ایم پی او 3 کے تحت حکومت کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی شہری کو عوامی نظم و نسق کے مفاد میں نظر بند کر سکتی ہے۔ جبکہ ایم پی او 16 تقریروں، تحریروں، اور دیگر ذرائع سے عوام کو اکسانے یا تشدد پر آمادہ کرنے والے افراد کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔اگرچہ بظاہر یہ قانون امن و امان کے لیے مفید معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کا سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق پر شدید منفی اثر پڑتا ہے۔پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے، لیکن MPO اکثر اس حق کو سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صحافیوں، سیاسی کارکنوں، اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو محض حکومت پر تنقید کرنے یا احتجاج کرنے کی پاداش میں MPO کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔بغیر مقدمے کے گرفتاری انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) کے آرٹیکل 9 کے مطابق، “کسی بھی شخص کو من مانی طریقے سے گرفتار یا قید نہیں کیا جا سکتا۔” لیکن MPO حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو باقاعدہ مقدمہ چلائے بغیر محض ایک انتظامی حکم کے ذریعے نظر بند کر دے۔پاکستان میں MPO کا استعمال زیادہ تر حکومت مخالف سیاستدانوں اور کارکنوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن رہنماؤں کو MPO کے تحت گرفتار کیا گیا۔1980 کی دہائی میں ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران، اس قانون کو جمہوریت پسند کارکنوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے کئی کارکنوں کو MPO کے تحت گرفتار کیا گیا۔2
؟-2022-23 میں حکومت مخالف احتجاج کے دوران متعدد سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو MPO کے ذریعے نظر بند کیا گیا۔ پاکستان کے زیر نتظام جموں کشمیر میں جہاں بھی کوئی بھی عوامی حقوق ،اپنے وسائل پر کنٹرول ،حق حکمرانی ،حق ملکیت یا عوامی فلاح کے آواز بلند کریگا وہ ایم پی او کے تحت اعتاب کا شکار ہو گا حالانکہ یہ خطہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے مطابق متنازعہ ہے اور اس کے عوام پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھارت یا پاکستان کا کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ۔ دوسری جانب پاکستانی عدالتوں نے متعدد مواقع پر MPO کے غلط استعمال کا نوٹس لیا بھی لیا ہے۔ جیسےلاہور ہائی کورٹ نے 2022 میں MPO کے تحت ہونے والی گرفتاریوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سپریم کورٹ نے 2018 میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ MPO کا نفاذ صرف انتہائی مخصوص حالات میں ہونا چاہیے، نہ کہ سیاسی انتقام کے طور پر۔حنقیقت یہ ہے کہ ایم پی و جیسے قوانین جمہوریت کی روح کے خلاف ہیں اور ان کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔یہ قانون برطانوی دور کی یادگار ہے، جسے ایک آزاد اور خودمختار جمہوری ریاست میں برقرار رکھنا غیر منصفانہ ہے۔ جب برطانیہ نے اپنے ہاں ایسے قوانین کو ختم کر دیا، تو برطانیہ ہی کی کسی بھی سابقہ کالونی میں اس کا برقرار رہنا جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔جہاں آئین ہر شہری کو اظہارِ رائے، اجتماع اور آزادی کا حق دیتا ہے۔ MPO جیسے قوانین ان حقوق کو سلب کرتے ہیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات (جیسے یو این چارٹر اور عالمی انسانی حقوق کا اعلامیہ) کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔اگر امن و امان کے مسائل کے حل کے لیے کسی قانون کی ضرورت ہو، تو اس کے لیے ایسا قانون ہونا چاہیے جو عدالتی نگرانی کے تابع ہو، اور جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ محض انتظامیہ کے اختیارات کو بڑھا دینا جمہوری معاشروں میں قابل قبول نہیں۔MPO کو ہمیشہ سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر حکومت کو واقعی عوامی امن و امان کا مسئلہ درپیش ہو، تو اسے باقاعدہ مقدمہ چلا کر قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے، نہ کہ بغیر کسی عدالتی حکم کے لوگوں کو گرفتار کیا جائے۔MPO ایک ایسا قانون ہے جو جمہوری اصولوں، انسانی حقوق، اور آئین سے متصادم ہے۔ اگرچہ حکومت اسے عوامی نظم و ضبط کے لیے ضروری قرار دیتی ہے، لیکن اس کا اصل استعمال سیاسی کارکنوں، صحافیوں، اور احتجاج کرنے والے شہریوں کی آواز دبانے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ہمیں ایک جدید، جمہوری اور انسانی حقوق کے مطابق قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے، جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ لہٰذا، MPO جیسے نوآبادیاتی قوانین کو مکمل طور پر ختم کرنا ضروری ہے، تاکہ ملک میں انصاف، جمہوریت اور آزادی کو فروغ دیا جا سکے۔یہ ضروری ہے کہ ہم ایسے قوانین کو چیلنج کریں اور ایک حقیقی جمہوری نظام کی طرف بڑھیں، جہاں ہر شہری کو آزادی اور مساوی حقوق حاصل ہوں۔
مصنف کے بارے میں

- خواجہ کبیر احمد برطانوی/بیلجیئن کشمیری صحافی ہیں اپنے تعلیمی دور سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ برطانیہ سے صحافت میں ڈگری یافتہ ہیں، وئب ٹی وی چینل جموں کشمیر ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز / ڈائریکٹر پبلک أفیئرز اور اینکر پرسن ہیں پرنٹ جرنلزم میں مختلف موضوعات پر قلم أٹھاتے ہیں ریاست جموں کشمیر پر فوکس کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے پرچارک ہیں
تازہ ترین خبروں
رائے04/08/2025یاسین ملک: آزادی کا علمبردار اور بھارتی جبر کا شکار
رائے04/03/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر: عوامی حقوق، حکومتی وعدے اور کریک ڈاؤن
خبریں03/28/2025ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردار
رائے03/28/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی – ایک غیر ضروری اقدام
اس قانون کا بے دریغ استمال ہوتا رہا بلا وجہ سیاسی جماعتوں کے اراکین کے خلاف اور اس کے غیر انسانی استمعال کے خلاف نہ تو حکومتی اراکین پارلمنٹ اور نہ ہی حزب اختلاف کے معزز ممبران نے قانون سازی کی طرف توجہ دی دونوں اطراف سے ہی باری باری اس قانون سے مخالفین کو دبایا گیا نو آبادیاتی
قانون انگریز نے اپنی دہشت کو برقرار رکھنے کے لیے بنایا تھا
بہترین
کیا ریاست جموں کشمیر میں اس قانون کو ختم کرنے لیے ایک منظم حکمت عملی بنائی جا سکتی؟
ایسے جبری ایکٹ جن کے زریعے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا مقصود ہو۔ ایسے تمام قوانین دراصل نظریہ رجعت پسندی اور اقتدار کو ناجائز اور غیر جمہوری طریقہ سے طوالت دینے کے حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اسکا منطقی انجام بھی ایسا ہی بھیانک ہوتا ہے۔ کیونکہ طاقت کا اصل سرچشمہ تو عوام ہی ہیں۔ ایسے تمام عوام دشمن کالے ایکٹس کا تدارک اور خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ بصورت دیگر عوامی غضب کے سامنے ایسے ایکٹ سمندر میں حشرات الارض کی طرح بہۂ جاتے ہیں۔
This is well written and well explained right up which truly elaborate the history of MPO. As you said that this act was introduced by a colonial power to control and supress the people , but our rulers are still using this draconian laws to supress there own. people
Look
This is Black law and used against political workers in Pakistani administered Jammu Kashmir and specifically used against Nationalist activists we were facing this law during our political acticism many times in Pakistani administered Jammu Kashmir and arrested
in 2001 July and detained in Kotli jails one month during AJK assembly elections
we demand abolished all
Black laws in AJK and GB
Sardar Naseem Iqbal Advocate Chairman Jammu Kashmir International Legal Watch JKILW
It’s indeed a black law that curtails fundamental rights of individuals under any so called pretext of Maintenance of Public Order. We shall highlight this blatant violation of human rights at ongoing United Nations Human Rights Council session . On 20th March we are holding a side event inside the council headquarters. And also in my oral intervention under item agenda 4. We shall maintain all these issues at our memorandum to the United Nations Secretary General and other offices . We shall leave no stone unturned in this regard.
انگریز نے یہ قانون کیوں بنایا، یہ بات تو سمجھ آتی ہے مگر ہم نے اسے جاری کیوں رکھا ہوا ہے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔شاید ہماری اشرافیہ اس غلط فہمی میں ہےکہ ایسے قوانین کے نفاذ کے ذریعے عوامی رائے کو دبانے میں کامیاب رہے گی۔تاریخ شاید ہے کہ ایسا ہر گز ممکن نہیں۔اس قانون کو برصغیر میں متعارف کرانے والی انگریز حکومت بھی اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کر پائی تھی اور عوامی رائے کے سامنے جھکتے ہوئے اسے یہاں سے نکلنا پڑا تھا
جزاک اللّٰہ خیر محترم خواجہ کبیر احمد صاحب! بالکُل درست تفصیل لکھی ہے MPO Act کے بارے میں آپ نے، حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ ایکٹ اُن کالے قوانین میں سے ایک ہے جنہیں ہر حکومت نے اپنے غیر قانونی اقدامات اور کرتُوتوں کے خلاف اٹھنے والی عوامی آواز و احتجاج کو دبانے اور کُچلنے کیلئے ہی استعمال کیا ہے، اس کالے قانُون کا خاتمہ عوام کے “اظہارِ رائے کی آزادی” کے “آئینی حق” کی بقأ کیلئے انتہائی ضروری ہے_
ایسے جبری ایکٹ جن کے زریعے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا مقصود ہو۔ ایسے تمام قوانین دراصل نظریہ رجعت پسندی اور اقتدار کو ناجائز اور غیر جمہوری طریقہ سے طوالت دینے کے حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اسکا منطقی انجام بھی ایسا ہی بھیانک ہوتا ہے۔ کیونکہ طاقت کا اصل سرچشمہ تو عوام ہی ہیں۔ ایسے تمام عوام دشمن کالے ایکٹس کا تدارک اور خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ بصورت دیگر عوامی غضب کے سامنے ایسے ایکٹ سمندر میں حشرات الارض کی طرح بہۂ جاتے ہیں۔
بروقت درست نشاندہی کی گئی ہے ایسے قوانین کے خلاف بروقت منظم نا ہونے کا مطلب اگلی نسلوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے میں لیفٹ کی فکر والی سیاسی جماعتوں کا نام لکھا جاے گا کیونکہ مفاداتی جماعتوں نے اس اڑ میں چند بنیفشرز کا فائدہ ہو گا وہ اپنے فائدے کے اپنے کارکنوں کو بھی اندھیرے میں رکھ لیتے ہیں
اس آرڈینینس کے حوالے سے درست اور واضح تحریر ہے اس کے محرکات پر مفصل رپورٹ ہے اس آرڈینینس کا اطلاق سیاسی کارکنوں کے خلاف ہوتا رہا ہے ریاستی جبر اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگوں کو اس آرڈینینس کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے لازمی ہے کہ ایسے عوام دشمن قوانین کے خلاف جدوجہد تیز کی جائے
تقسیم برصغیرکیبعد قائم ہونیوالے ملک پاکستان کے ریاستی نظام کوکوئی نام نہیں دیاجاسکتا یہ ایک ہی وقت میں قدیم کلونیل نظام جدیدجمہوری وآرمی ہر طرح کے قوانین کامنبع ہے ۔اور اس کے زیراستعمال کالونی جموں کشمیر کی تو بات ہی مت کیجیے ۔2025میں ہم 1947میں جی رہے ہیں یقینا آپ نے بہت اہم نقطہ پر قلم اٹھایاہے ۔الللہ آپ کاحامی و ناصر ہو۔آمین