معاملہ بلدیاتی حکومتوں کے فنڈز کا
تحریر : خواجہ کبیر احمد
پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں تقریباً تین دہائیوں کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا، جس سے عوام کو امید ملی کہ نچلی سطح پر جمہوریت بحال ہوگی اور ترقیاتی کام مقامی ضروریات کے مطابق انجام دیے جائیں گے۔ تاہم، بدقسمتی سے دو سال گزرنے کے باوجود منتخب بلدیاتی نمائندوں کو کوئی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے وہ بے اختیار ہو کر رہ گئے ہیں۔ حکومتی رویہ اس جمہوری عمل کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، اور اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بلدیاتی حکومتیں کسی بھی جمہوری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ وہ مقامی سطح پر عوامی مسائل کو فوری حل کرنے کے قابل ہوتی ہیں۔ تعلیم، صحت، صفائی، پانی کی فراہمی، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی بلدیاتی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اگر ان حکومتوں کو مالی وسائل فراہم نہ کیے جائیں تو وہ اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر رہتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کی بلدیاتی حکومتوں کے پاس کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے ان کا مکمل انحصار حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے فنڈز پر ہے۔ اگر یہ فنڈز روک لیے جائیں یا جان بوجھ کر تاخیر کی جائے، تو یہ براہِ راست عوام کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کرنے کے کئی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں گلیاں، سڑکیں اور سیوریج سسٹم خستہ حالی کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ صفائی کا نظام بھی درہم برہم ہے۔عوام نے اپنے بلدیاتی نمائندوں کو اسی امید پر منتخب کیا تھا کہ وہ مقامی سطح پر ان کے مسائل حل کریں گے، لیکن جب ان کے پاس فنڈز ہی نہیں تو وہ بے اختیار ہیں۔ اگر بلدیاتی حکومتوں کو فنڈز فراہم نہ کیے جائیں، تو ان کے ترقیاتی منصوبے ایم ایل ایز اور دیگر سیاسی شخصیات کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں، جس سے نہ صرف کرپشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں بلکہ مقامی سطح پر ترقیاتی کاموں میں غیر ضروری سیاسی مداخلت پیدا ہو جاتی ہے۔عدالت کی جانب سے حکومت کو حکم دیا جا چکا ہے کہ وہ بلدیاتی کونسلز کے تمام فنڈز جاری کرے، لیکن حکومت اب تک اس پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ یہ آئینی اور قانونی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، جو ایک جمہوری نظام میں ناقابلِ قبول ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی حکومتوں کو تمام فنڈز فوری طور پر جاری کرے تاکہ عوام کے بنیادی مسائل حل کیے جا سکیں۔
اگر حکومت واقعی جمہوری اقدار کی پاسداری کرنا چاہتی ہے، تو اسے بلدیاتی اداروں کو مضبوط اور خودمختار بنانا ہوگا۔ دنیا بھر میں بلدیاتی حکومتیں عام طور پر اپنے وسائل خود پیدا کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو بغیر کسی مداخلت کے جاری رکھ سکیں۔ ان کے مالیاتی ذرائع میں مقامی ٹیکس، فیس، خدمات سے حاصل ہونے والی آمدن، اور مرکزی حکومت کی گرانٹس شامل ہوتی ہیں۔ مگر پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں مقامی کونسلز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر بلدیاتی حکومتوں کو مالیاتی خودمختاری دی جائے، تو وہ اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام خود کر سکیں گی اور سیاسی مداخلت سے بچا جا سکے گا۔برطانیہ میں مقامی حکومتیں ایک موثر مالیاتی نظام کے تحت کام کرتی ہیں، جس میں ان کے مالی وسائل کو تین بڑے ذرائع سے پورا کیا جاتا ہے.برطانیہ میں رہائشی اور تجارتی ادارے مقامی حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کونسل ٹیکس گھروں پر اور بزنس ریٹس تجارتی اداروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکس مقامی حکومت کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں اور بنیادی خدمات جیسے صفائی، تعلیم، ٹرانسپورٹ، اور صحت کے منصوبوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔
برطانوی حکومت بعض مواقع پر مقامی کونسلز کو مخصوص منصوبوں کے لیے گرانٹس فراہم کرتی ہے، تاکہ مقامی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔پارکنگ فیس، کچرا نکاسی کے چارجز، پبلک ٹرانسپورٹ سے آمدن، اور دیگر بلدیاتی خدمات سے حاصل ہونے والی فیس مقامی حکومت کے بجٹ کا اہم حصہ ہوتی ہے۔ یوں اگررہائشی اور تجارتی اداروں پر مناسب حد تک مقامی ٹیکس عائد کیے جائیں، جس کا مکمل اختیار بلدیاتی حکومتوں کو ہو تو بلدیاتی حکومتوں کی آمدن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔بلدیاتی حکومتوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ پارکنگ فیس، کمرشل لائسنسنگ، مارکیٹ فیس، اور دیگر عوامی خدمات کے ذریعے فنڈز حاصل کر سکیں ۔اگرچہ بلدیاتی حکومتوں کو خودمختار بنایا جانا چاہیے، لیکن ابتدائی مراحل میں مرکزی حکومت کو مخصوص ترقیاتی منصوبوں کے لیے گرانٹس جاری کرنی چاہئیں تاکہ بلدیاتی حکومتیں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکیں۔ ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے، تاکہ مقامی حکومتوں پر مالی دباؤ کم ہو اور انفراسٹرکچر میں بہتری آئے۔پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور مالی وسائل فراہم کرنا ایک ضروری اقدام ہے۔
اگر انہیں مالیاتی خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے علاقوں میں ترقیاتی منصوبے بہتر انداز میں مکمل کر سکیں گے۔ برطانیہ جیسے ممالک میں لوکل گورنمنٹ کے کامیاب مالیاتی ماڈلز سے سیکھ کر ایک پائیدار نظام متعارف کرایا جا سکتا ہے، جو نہ صرف سیاسی مداخلت سے آزاد ہو بلکہ مقامی عوام کی ضروریات کو بھی مؤثر انداز میں پورا کر سکے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر بلدیاتی کونسلز کے فنڈز جاری کرے اور اس نظام کو سیاسی چالبازیوں سے محفوظ رکھے۔ اگر بلدیاتی حکومتوں کو مالی طور پر مستحکم نہیں کیا گیا تو نہ صرف عوامی مسائل میں اضافہ ہوگا، بلکہ جمہوری عمل بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ لہٰذا، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور مقامی نمائندوں کو ان کے اختیارات اور وسائل فراہم کرے تاکہ وہ اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کر سکیں۔
مصنف کے بارے میں

- خواجہ کبیر احمد برطانوی/بیلجیئن کشمیری صحافی ہیں اپنے تعلیمی دور سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ برطانیہ سے صحافت میں ڈگری یافتہ ہیں، وئب ٹی وی چینل جموں کشمیر ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز / ڈائریکٹر پبلک أفیئرز اور اینکر پرسن ہیں پرنٹ جرنلزم میں مختلف موضوعات پر قلم أٹھاتے ہیں ریاست جموں کشمیر پر فوکس کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے پرچارک ہیں
تازہ ترین خبروں
رائے04/08/2025یاسین ملک: آزادی کا علمبردار اور بھارتی جبر کا شکار
رائے04/03/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر: عوامی حقوق، حکومتی وعدے اور کریک ڈاؤن
خبریں03/28/2025ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردار
رائے03/28/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی – ایک غیر ضروری اقدام