|

پونچھ یونیورسٹی اور ڈاکٹر ذکریا ذاکر: ایک علمی انقلاب

شئر کریں

تحریر : خواجہ کبیر احمد

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہوتی ہے۔ وہی اقوام ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو اپنے تعلیمی اداروں کو مضبوط کرتی ہیں اور انہیں جدید خطوط پر استوار کرتی ہیں۔ پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں واقع پونچھ یونیورسٹی بھی ایک ایسا تعلیمی ادارہ ہے جو طویل عرصے تک بنیادی سہولیات اور ترقیاتی کاموں کی کمی کے باعث مشکلات کا شکار رہا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں اس یونیورسٹی میں ایک زبردست تعلیمی انقلاب دیکھنے کو ملا، جس کا سہرا موجودہ وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کے سر جاتا ہے۔

ان کی انتھک محنت اور ویژنری قیادت نے پونچھ یونیورسٹی کو ایک جدید اور معیاری تعلیمی ادارے میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی۔پونچھ یونیورسٹی کے طلبہ کو سالہا سال تک بنیادی تعلیمی سہولیات کے فقدان کا سامنا رہا۔ کئی کیمپس صرف نام کے تھے، مگر حقیقت میں وہ چند دکان نما کمروں تک محدود تھے۔ سپلائی بازار کیمپس میں طلبہ کو نامساعد حالات میں علم حاصل کرنا پڑا، جہاں کلاس رومز ناکافی تھے اور تعلیمی ماحول بھی معیاری نہیں تھا۔ اسی طرح چھوٹا گلہ کیمپس بھی ترقیاتی کاموں کی کمی کے باعث پسماندگی کا شکار رہا۔ ان مسائل کی وجہ سے طلبہ اور اساتذہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور یونیورسٹی کا تعلیمی معیار متاثر ہوتا رہا۔پونچھ یونیورسٹی میں تعلیمی انقلاب کا آغاز اس وقت ہوا جب پروفیسر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کو وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔

انہوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے بنیادی ڈھانچے پر کام کیا بلکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے۔تراڑ کیمپس جو کہ نامکمل تھا، ڈاکٹر ذکریا ذاکر کی قیادت میں مکمل ہوا، جبکہ چھوٹا گلہ کیمپس کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات کیے گئے۔ ڈاکٹر ذکریا ذاکر کی قیادت کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ صرف عمارتوں کی تعمیر پر توجہ نہیں دے رہے، بلکہ تعلیمی معیار، تحقیق، اور جدید علوم کی ترویج کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کر رہے ہیں۔ان کا وژن ہے کہ پونچھ یونیورسٹی کو ایک ایسا علمی مرکز بنایا جائے جہاں طلبہ صرف ڈگریاں حاصل نہ کریں بلکہ جدید سائنسی علوم، ٹیکنالوجی، اور تحقیق کے میدان میں مہارت حاصل کر سکیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ عالمی سطح پر تعلیمی میدان میں اپنا مقام بنائے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ڈاکٹر ذکریا ذاکر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف روایتی انتظامی انداز میں یونیورسٹی نہیں چلاتے بلکہ میدان میں آ کر خود کام کرتے ہیں۔ وہ طلبہ اور اساتذہ کے مسائل کو سمجھتے ہیں اور ان کے حل کے لیے عملی اقدامات کرتے ہیں۔ میں ذاتی ملاقاتوں میں أن کے بارے میں یہی راۓ قائم کر سکا کہ وہ ایک ہمدرد، علم دوست، اور محنتی شخصیت کے حامل ہیں جو تعلیمی ترقی کو محض ایک رسمی کام نہیں سمجھتے بلکہ اسے اپنی ذمہ داری اور مشن کا حصہ سمجھتے ہیں۔جس طرح ماضی میں شاردا یونیورسٹی تاریخی طور پرایک عظیم علمی درس گاہ تھی اور اس نے دنیا کو بڑے فلسفی، سائنسدان اور دانشور دیے، گو کے آج اسکی باقیات کو بھی نہیں سھنبالا جا رہا بر حال اگر پونچھ یونیورسٹی کو مناسب وسائل اور قیادت فراہم کی جائے تو یہ بھی ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن سکتی ہے۔

ڈاکٹر ذکریا ذاکر کی قیادت میں ہونے والی ترقی یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر قابل اور مخلص قیادت میسر ہو تو تعلیمی اداروں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ان کی محنت اور وژن کی بدولت پونچھ یونیورسٹی کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے، اور اگر ان کی اصلاحات جاری رہیں تو یہ ادارہ ایک مثالی یونیورسٹی بن سکتا ہے۔پونچھ یونیورسٹی میں ہونے والی ترقی اور ڈاکٹر ذکریا ذاکر کی خدمات یہ ثابت کرتی ہیں کہ تعلیم ہی کسی بھی قوم کی ترقی کی اصل بنیاد ہے۔ ہمیں ایسے مخلص اور قابل رہنماؤں کی قدر کرنی چاہیے اور ان کے مشن میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ جو بنیادی طور بر ہماری نسلوں کی بقاء کے لیے ہے۔یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے اپنی آواز بلند کریں اور ایسے اقدامات کی حمایت کریں جو نئی نسل کے لیے معیاری تعلیم اور تحقیق کے مواقع پیدا کریں۔ اگر ہم نے آج اپنی تعلیمی اداروں کی ترقی میں کردار ادا کیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں ایک روشن مستقبل کے ضامن کے طور پر یاد رکھیں گی۔

مصنف کے بارے میں

Khawaja Kabir Ahmed
Khawaja Kabir Ahmed
خواجہ کبیر احمد برطانوی/بیلجیئن کشمیری صحافی ہیں اپنے تعلیمی دور سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ برطانیہ سے صحافت میں ڈگری یافتہ ہیں، وئب ٹی وی چینل جموں کشمیر ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز / ڈائریکٹر پبلک أفیئرز اور اینکر پرسن ہیں پرنٹ جرنلزم میں مختلف موضوعات پر قلم أٹھاتے ہیں ریاست جموں کشمیر پر فوکس کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے پرچارک ہیں

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *