پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی – ایک غیر ضروری اقدام
تحریر : خواجہ کبیر احمد
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر ایک پُرامن خطہ ہے، جہاں دہشگردی یا کسی بڑی بدامنی کی تاریخ نہیں ملتی۔ یہاں کے عوام ہمیشہ پرامن طریقے سے اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے آئے ہیں اور خطے میں عمومی طور پر استحکام رہا ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے رینجرز کی تعیناتی کا فیصلہ ایک غیر ضروری اور خطرناک قدم محسوس ہوتا ہے، جو خطے میں عدم استحکام اور عوامی اضطراب کو بڑھا سکتا ہے۔
شاہدحکومت نے یہ قدم عوامی حقوق کی تحریک کو دبانے کے لیے اٹھایا ہے، حالانکہ یہ تحریک پُرامن انداز میں اپنے مطالبات پیش کر رہی ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں عوام کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کی بات سنے، نہ کہ طاقت کے ذریعے انہیں دبانے کی کوشش کرے۔
رینجرز کی تعیناتی سے عوام میں بے چینی بڑھے گی اور حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگا، جو کسی بھی صورت میں ملک اور خطے کے مفاد میں نہیں۔جموں کشمیر میں نہ تو کوئی شدت پسند تحریک چل رہی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی خطرہ موجود ہے جو اس قدر سخت اقدامات کا تقاضا کرے۔
اگر حکومت کو عوامی احتجاجات یا مظاہروں پر تحفظات ہیں تو ان سے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جانا چاہیے تھا، نہ کہ سیکورٹی فورسز کو طلب کر کے خوف و ہراس پیدا کیا جاتا۔ ایسے اقدامات عوام اور حکومت کے درمیان دراڑ پیدا کرتے ہیں اور خطے میں مزید بے چینی کو جنم دیتے ہیں۔رینجرز کی تعیناتی سے عوام میں خوف نہیں بلکہ نفرتیں بڑیں گی جب عوام اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور انہیں طاقت کے ذریعے دبایا جاتا ہے، تو وہ حکومت سے متنفر ہو جاتے ہیں، جو خطے میں انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔
جب حکومت پُرامن احتجاجات کو سختی سے دباتی ہے، تو یہ بین الاقوامی سطح پر ایک منفی تاثر پیدا کرتا ہے، جو خطے کی مزید بدنامی کا باعث بنتا ہے۔حکومت کو عوام کی نمائندہ ہونا چاہیے، نہ کہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے والا ادارہ۔ ایسے فیصلے عوام اور حکومت کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کر سکتے ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ طاقت کے بجائے عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لے اور انھیں حل کرے۔
عوام کے ساتھ شفاف مکالمہ ضروری ہے تاکہ ان کے مسائل کا پائیدار حل نکالا جا سکے۔ اگر حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوگی، تو احتجاجات اور مظاہروں کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی ایک غیر ضروری اور نقصان دہ قدم ہے، جو خطے میں انتشار اور بے چینی کو بڑھا سکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور عوام کے جائز مطالبات کو دبانے کے بجائے ان کا مناسب حل نکالے۔ طاقت کے استعمال سے وقتی طور پر مسائل کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن یہ دیرپا حل نہیں ہوتا بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عوام کی بات سنے اور ان کے مسائل کو پُرامن اور جمہوری طریقے سے حل کرے۔
مصنف کے بارے میں

- خواجہ کبیر احمد برطانوی/بیلجیئن کشمیری صحافی ہیں اپنے تعلیمی دور سے شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ برطانیہ سے صحافت میں ڈگری یافتہ ہیں، وئب ٹی وی چینل جموں کشمیر ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز / ڈائریکٹر پبلک أفیئرز اور اینکر پرسن ہیں پرنٹ جرنلزم میں مختلف موضوعات پر قلم أٹھاتے ہیں ریاست جموں کشمیر پر فوکس کرتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے پرچارک ہیں
تازہ ترین خبروں
رائے04/08/2025یاسین ملک: آزادی کا علمبردار اور بھارتی جبر کا شکار
رائے04/03/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر: عوامی حقوق، حکومتی وعدے اور کریک ڈاؤن
خبریں03/28/2025ریاست جموں و کشمیر کی محنت کش خواتین: جدوجہد، قربانیاں اور کردار
رائے03/28/2025پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں رینجرز کی تعیناتی – ایک غیر ضروری اقدام
ماشأاللّٰہ بہت عمدہ اور مبنی بر حقائق تحریر ہے یہ آپ کی خواجہ کبیر احمد صاحب!
حقیقت یہ ہے کہ:
*”مُستَرد، مُستَرد، مُستَرد”*
عوامی ایکشن کمیٹی اور آزادی پسند عوام کو کچلنے کیلئے پاکستانی فوج اور ان کی سہولتکار نام نہاد آزاد کشمیر حکُومت کا نیا مشترکہ حربہ ہے یہ رینجرز تعیناتی کا مَکّارانہ فیصلہ_
*ہر “غیرتمند اور محبِّ وطن باشندۂِ ریاست جموں کشمیر” اسے “مُستَرد” کرتا ہے*_
بہت ہی عمدہ و برحق تحریر ہے آپ کی محترم خواجہ کبیر احمد صاحب!
درحقیقت!
عوامی ایکشن کمیٹی اور آزادی پسند عوام کو کچلنے کیلئے پاکستانی فوج اور ان کی سہولتکار نام نہاد آزاد کشمیر حکُومت کا نیا مشترکہ حربہ ہے یہ رینجرز تعیناتی کا مَکَّارانہ فیصلہ_
*ہر “غیرتمند اور محبِّ وطن باشندۂِ ریاست جموں کشمیر” اسے “مُستَرد” کرتا ہے*_