|

پاکستان کا بجٹ کون کنٹرول کرتا ہے؟

شئر کریں

تحریر : ڈاکٹر عتیق الرحمن

ہر سال اپریل کی آمد پر وفاقی بجٹ کی تیاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ماہرین، سیاست دان، میڈیا مبصرین اور باشعور شہری حکومت کو مشورے دینے لگتے ہیں کہ کہاں خرچ کیا جائے، کہاں کٹوتی کی جائے اور اصلاحات کیسے کی جائیں۔ لیکن اس مشق میں شامل ہونے سے پہلے ایک اہم سوال کا جواب ضروری ہے: بجٹ دراصل کون تیار کرتا ہے، اور عوامی فنڈز کی تقسیم کا حقیقی اختیار کس کے پاس ہے؟

اس سوال کا کتابی جواب تو یہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وزارت خزانہ بجٹ بنانے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ آئینی طور پر یہی ادارے بجٹ مرتب اور پیش کرتے ہیں، لیکن درحقیقت وزارت خزانہ کا بجٹ کے بڑےحصے پر کنٹرول انتہائی محدود ہوتا ہے۔

آئیے حقیقت کا جائزہ لیں۔

بجٹ کا سب سے بڑا حصہ سرکاری قرضوں پر سود کی ادائیگی لئے مختص کیا جاتا ہے۔ موجودہ مالی سال میں وفاقی بجٹ کا 57 فیصد اس مقصد کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ حصہ نہ تو وزارت خزانہ طے کرتی ہے ، نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی کوئی منتخب ادارہ، ؛ بلکہ یہ حصہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی سے متعین ہوتا ہے۔ اگر سٹیٹ بینک شرح سود بڑھاتا ہے تو قرضوں پر سود کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ حکومت کے پاس اس فیصلے کو مسترد کرنے یا نظرانداز کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ، اسے ہر صورت ان ادئیگیوں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ اگر سٹیٹ بینک شرح سود اس قدر بڑھا دے کہ سود کی ادائیگیاں بجٹ کے 57 فیصد سے بڑھ کر 65 یا 70 فیصد ہو جائیں، تو حکومت کو بغیر کسی بحث کے بس ماننا ہی پڑتا ہے۔
بجٹ کا دوسرا بڑا حصہ صوبوں کا حصہ ہے، جو نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے تحت منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ حصہ تمام صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان طے شدہ فارمولے کے مطابق متعین ہوتا ہے، اور ایک بار طے ہو جانے کے بعد اسے یکطرفہ طور پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی حکومت قانونی اور آئینی طور پر متعینہ رقم جاری کرنے کی پابند ہے۔
بجٹ کا ایک اور بڑا اورغیرلچکدار حصہ دفاعی اخراجات ہیں، جو اس وقت وفاقی بجٹ کا تقریباً 13 فیصد ہیں۔ دفاعی اخراجات میں اضافہ تریبا اسی تناسب میں ہو گا جس تناسب سے مجموعی بجٹ میں اضافہ ہوگا۔ حکومت اس حصے میں معمولی ردوبدل کا اختیار رکھتی ہے اورعموما میڈیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کے زیر اثر اس حصے میں کمی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً گزشتہ دس برس میں وفاقی بجٹ میں دفاعی اخراجات کا تناسب 22 فیصد سے کم ہو کر 13 فیصد تک آ چکا ہے۔

سول حکومت کے عملی اخراجات جن میں تنخواہیں اور انتظامی اخراجات شامل ہیں، بجٹ کا ایک اور اہم حصہ ہیں۔ تنخواہوں کے تعین کا یک طریقہ کار پہلے سے متعین ہے۔ طے شدہ سیلری سٹرکچر ، انفلیشن ایڈجسٹمنٹ اور ادارہ جاتی کمٹمنٹ کی وجہ سے ان اخراجات میں بھی انتہائی معمولی ردوبدل کی گنجائش موجود ہے۔ اسی طرح، پنشن ، سبسڈی، اور وفاقی خود مختار اداروں کے لیے گرانٹس بھی پہلے سے طے شدہ طریقہ کار کے تحت متعین کئے جاتے ہیں۔

صوبائی حکومتوں کا بجٹ پر اختیار اس سے بھی کم تر ہوتا ہے۔ ان کے بجٹس کا زیادہ تر انحصار NFC ایوارڈ کے ذریعے وفاقی منتقلیوں پر ہوتا ہے۔صوبائی حکومتوں نے اسی سیلری سٹرکچر کو کاپی کرنا ہے جو وفاقی حکومت نے متعین کر دیا ہے۔ اپنے وسائل سے کم آمدنی کی وجہ سے ان کی صوابدید زیادہ تر ترقیاتی منصوبوں تک محدود ہوتی ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کیلئے تقریباً پورا بجٹ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے، جس میں کسی بڑی تبدیلی یا جدت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ وہ واحد شعبہ جہاں حکومت کچھ صوابدید استعمال کر سکتی ہے وہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) ہے، جسے عام طور پر ترقیاتی بجٹ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہاں بھی عملی رکاوٹیں حکومت کے اختیارات کو محدود کر دیتی ہیں۔ گزشتہ دس برس کی اقتصادی تاریخ بتاتی ہے کہ حکومتیں ترقی کے لیے مختص معمولی رقوم کو بھی پورا استعمال کرنے میں ناکام رہی ہیں، اور اکثر مالی سال کے وسط میں آمدنی میں کمی یا سودی ادائیگیوں کے بڑھتے بوجھ کے سبب ترقیاتی اخراجات میں بھاری کٹوتی کی جاتی رہی ہے۔

یہ سب حقائق واضح کرتے ہیں کہ حقیقت میں مالیاتی امور متعین کرنے میں سب سے بااثر ادارہ وزارت خزانہ نہیں، بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ سٹیٹ بینک کی تعین کردہ شرح سود متعین کرتی ہے کہ قومی بجٹ کا کتنا حصہ سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہوگا۔ سٹیٹ بینک اپنی صوابدید سے سودی ادائیگیوں کے لیے مختص رقوم کو بغیر کسی اعتراض یا سوال کےغیر متناسب طور پر بڑھاتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال 23-2022 کے دوران پاکستان کے اندرون ملکی قرض میں تقریباً 20 فیصد اضافہ ہوا، ، لیکن اس سے اگلے سال سود کی ادائیگی میں 87 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر 2018 سے 2025 تک سرکاری اندرون ملکی قرض میں 200 فیصد اضافہ ہوا لیکن سود کیلئے مختص رقوم میں 500 فیصد کا اضافہ ہو گیا۔

سٹیٹ بینک کی متعین کردہ بلند شرح سود نہ صرف سرکار قرض پر واجب الادا سود کی رقم کو بڑھا دیتی ہے، بلکہ متعدد دیگر معاشی فیصلوں اور نتائج پر بھی براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ بجٹ خسارہ، کاروبار کی لاگت، سستے قرضوں پر سبسڈی کی لاگت، بے روزگاری کی سطح، معاشی ترقی اور مہنگائی کا دارومدار بھی شرح سود پر ہوتا ہے جس پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔ معیشت پر گہرے اثرات کے باوجود سٹیٹ بینک کسی جوابدہی سے مبرا ہو کر کام کرتا ہے۔ اس کے فیصلوں کی موثر ہونے اور ملکی معیشت پر سٹیٹ بینک کے فیصلوں کے اثرات کے حوالے سے سٹیٹ بینک کو جواب دہ بنانے کے لیے کوئی قانونی طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے۔
موجودہ مالی سال میں سود کی ادائیگی کے لیے 9800 ارب روپے کی رقم مختص ہے۔ لیکن اتنی بڑی رقم کے استعمال ، ضرورت یا جواز کا کوئی آزادانہ مالیاتی آڈٹ یا تکنیکی جانچ نہیں ہوتی۔ بلکہ حالیہ قانونی تبدیلیوں نے سٹیٹ بینک کو قانونی جوابدہی سے مستثنیٰ کر دیا ہے، جس سے سٹیٹ بینک پارلیمانی، عدالتی یا آڈٹ اداروں کی پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔ یہ بڑا عجیب مضحکہ خیز تضاد ہے کہ خریداری کے قوانین کے تحت ایک سرکاری ملازم کو چند ہزار روپے کی خریداری پر جواب دہ ٹھہرایا جا سکتا ہے اگر اس کے پاس خریداری کی رسیدیں موجود نہ ہوں۔ اس کے برعکس سٹیٹ بینک کے فیصلے 9800 ارب کے اخراجات کا سبب بنتے ہیں، لیکن ان اخراجات کی جوازیت فراہم کرنے کیلئے سٹیٹ بینک کسی آئینی یا قانونی ادارے کو جواب دہ نہیں ہے۔
سٹیٹ بینک یہ جواز دے کر شرح سود بڑھاتا ہے کہ اس کے اس اقدام سے مہنگائی کم ہو گی، لیکن درحقیقت یہی بلند شرح سود مہنگائی میں اضافہ کا سبب ہے۔ شرح سود بڑھانے سے حکومت کے ذمہ واجب الادا سود کی رقم بڑھ جاتی ہے، اور اس سود کو ادا کرنے کیلئے حکومت کو ٹیکس بڑھانے اور سبسڈیز کم کرنی پڑتی ہیں، اور یہ اقدام مہنگائی کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ زیادہ شرح سود سے قرضہ لینے کی لاگت بڑھ جاتی ہے، جس سے نئے کاروباروں میں رکاوٹ، موجودہ کاروباروں کی توسیع میں مشکلات اور موجودہ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ سب نتائج مہنگائی کو مزید بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
سٹیٹ بینک کے طریقہ کار میں شفافیت کی شدید کمی ہے۔ شدید بینک نے تسلسل سے کمرشل بینکنگ سے وابستہ افراد کو اعلی ترین پوزیشنوں پر تعینات کیا ہے جن کا درحقیقت سنٹرل بینکنگ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ افراد نہ صرف مرکزی بینکنگ اور میکرو اکنامک پالیسی سے بے بہرہ ہوتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر مالیاتی فیصلہ کو عومی فلاح کی بجائے نفع نقصان کے ترازو پر تولنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے سابق اداروں یعنی کمرشل بینکوں کے شیئر ہولڈر بھی ہوتے ہیں، اور ان بینکوں کا مفاد زیادہ شرح سود سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس طرح یہ تعیناتیاں مفادات کے تصادم کے بنیادی اصول کے خلاف ہوتی ہیں۔ ایسے افراد کو مانیٹری پالیسی ترتیب دینے کی اجازت دینا ایسا ہی ہے جیسے دواسازی کے ایگزیکٹوز کو ادویات کی ریگولیشن کی قیادت سونپ دی جائے۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ متعین ہو گیا کہ دراصل وفاقی بجٹ کون بناتا ہے۔ بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ سٹیٹ بینک کے شرح سود کے فیصلوں سے طے ہوتا ہے، جبکہ دفاع سمیت دیگر تمام اخراجات پہلے سے متعین ہوتے ہیں تو واضح ہو گیا کہ اصل بجٹ ساز ادارہ سٹیٹ بینک ہی ہے۔ اگر بجٹ سازی کا اختیار سٹیٹ بینک کے پاس ہے تو جواب دہ بھی بنیادی طور پر سٹیٹ بینک کو ہونا چاہئے۔ اصل طاقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان جیسے اداروں کے پاس ہے، جن کی بے لگام اختیارات تمام تر بجٹ ، معاشی ترقی، روزگار اور مہنگائی وغیرہ کا تعین کرتے ہیں۔ لیکن ستم ظریقی یہ کہ یہ ادارہ پارلیمنٹ سمیت کسی بھی ادارے کو جواب دہ نہیں۔ اصل بجٹ ساز ادارے کی پہچان نہ ہونے اور جوابدہی کی کمی ؛ اس سب کے ہوتے ہوئے تمام تر پری بجٹ مباحثے، سیمینارز اور پالیسی مکالمے ایک خام خیالی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

بجٹ میں کوئی ترامیم تجویز کرنے سے پہلے، ہمیں بجٹ اختیارات کو منتخب فورمز کو واپس کرنے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی—ایسے فورم جو عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔ مالیاتی فیصلے کسی ایسے ادارے کے پاس نہیں ہونے چاہئیں جو آئینی اداروں کے سامنے جوابدہ نہ ہو۔ آئینی اصلاحات کے ذریعے اختیارات انہیں واپس ملنے چاہئیں جو عوام کے سامنے جوابدہ ہوں۔

مصنف کے بارے میں

admin

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *