جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی واپسی
تحریر: جلال الدین مغل
آزاد جموں و کشمیر میں عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی منظرنامہ ایک بار پھر متحرک ہوتا رہا ہے- روایتی سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر ایک نیا اور نسبتاً زیادہ متحرک اور تیزی سے مقبول ہوتا کردار اس منظر نامے میں ارتعاش پیدا کر رہا ہے- جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی — ایک ایسا پلیٹ فارم جو اگرچہ روایتی سیاست کے دائروں سے باہر ہے، مگر عوامی نبض پر اس کی گرفت حیرت انگیز طور پر مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
گزشتہ شب مظفرآباد کے لال چوک میں منعقد ہونے والا عظیم الشان جلسہ نہ صرف عوامی شرکت کے لحاظ سے تاریخی تھا بلکہ اس نے ریاستی سیاست میں ایک نئی توانائی، ایک نیا رجحان اور ایک نیا سوال بھی جنم دیا ہے: کیا یہ محض احتجاجی سیاست ہے یا کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ؟
اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں مختلف نظریاتی پس منظر رکھنے والے افراد نے ایک ہی اسٹیج پر یک زبان ہو کر عوامی حقوق کی بات کی۔ شوکت نواز میر کا پڑھا گیا اعلامیہ، جس میں حکومت کو تسلیم شدہ مطالبات پر عملدرآمد کے لیے 8 جون کی حتمی مہلت دی گئی، صرف حکومت کو وارننگ ہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی عزم کی گواہی بھی ہے-
اعلامیہ میں لائن آف کنٹرول توڑنے جیسے الفاظ صرف جذباتی نعرے نہیں بلکہ اس گہرے اضطراب کی علامت ہیں جو دہائیوں سے کشمیری عوام کے دلوں میں پل رہا ہے اور 05 اگست 2019 کو ہندوستان کے یکطرفہ اقدام اور پاکستان کے کمزور ردعمل نے اسے بتدریج اسے ایک جوالہ بنا دیا ہے-
ریاست کے طول و عرض سے مظفرآباد کا رخ کرنے والے ہزاروں افراد درحقیقت اس خاموش اکثریت کی نمائندگی کر رہے تھے جو روایتی سیاست، مقامی حکومت کی بے حسی اور نمائشی اعلانات سے بیزار ہو چکی ہے۔ حیرت انگیز طور پر نوجوان اس تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ محض وقتی ابال نہیں بلکہ ایک مسلسل، باشعور اور مربوط تحریک پنپ رہی ہے۔
دوسری طرف، موجودہ حکومت کی بے بسی اور اندرونی انتشار واضح ہوتا جا رہا ہے۔ مصنوعی اتحاد پر کھڑی حکومت کے وزراء کی پریس کانفرنسز اب محض رسمی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں لگتیں۔ ایسے میں عوامی ایکشن کمیٹی کی للکار، حکومت کی بے وزنی کو مزید عیاں کر رہی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے گزشتہ سال دو تاریخی لانگ مارچ اور اس دوران ہونے والے مَعَععع آزاد کشمیر حکومت کی اختیارات اور فیصلہ سازی پر گرفت کا پول تو بہت پہلے ہی کھل چلا ہے-
دلچسپ امر یہ ہے کہ خود کو غیر سیاسی کہنے والی یہ تحریک اب ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ وہ پرانے سیاسی چہرے جو سالہا سال سے سیاست اور اقتدار پر قابض رہے ہیں، اب اس تحریک کو اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ شاید وقت کا پہیہ اب ان کی جانب نہیں، عوام کی طرف گھوم رہا ہے۔
یہ بھی بعید نہیں کہ مستقبل میں عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ایک نیا سیاسی اتحاد جنم لے، جو نہ صرف موجودہ ڈھانچے کو چیلنج کرے بلکہ خطے کی سیاست کو ایک نئی سمت دے۔ اگر یہی جوش، یہی اتحاد اور یہی عوامی حمایت قائم رہی تو آئندہ انتخابات میں ایک نیا سیاسی منظرنامہ ہمارے سامنے ہو گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کی سیاسی قیادت اور موجودہ حکمران طبقہ عوامی مطالبات کو سمجھ کر اصلاح کی طرف مائل ہوتا ہے یا ضد اور بے حسی کے ساتھ عوامی اعتماد اور عوام کی نظر میں اپنی ساکھ مزید کھوتا ہے۔
وقت کی نبض پہچاننے والوں کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن ہے — اور جنہیں اقتدار کا زعم ہے، شاید اُن کے لیے یہ عوام کی طرف سے آخری انتباہ۔
مصنف کے بارے میں
- جلال الدین مغل
تازہ ترین خبروں
رائے05/25/2025جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی واپسی