میرا مادرِ علمی: شبیر احمد شہید گورنمنٹ ہائی سکول دریک
تحریر: خواجہ کبیر احمد
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اور تعلیمی ادارے وہ مراکز ہوتے ہیں جہاں قوم کے معمار تیار کیے جاتے ہیں۔ میرا مادر علمی، شبیر احمد شہید گورنمنٹ ہائی سکول دریک، نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے بلکہ یہ ایک تاریخی ورثہ بھی ہے۔ یہ ادارہ کئی دہائیوں سے علاقے کے طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے اور بے شمار باصلاحیت افراد کو زندگی کے مختلف میدانوں میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر چکا ہے۔یہ عظیم درسگاہ ریاست کی تقسیم سے قبل قائم کی گئی تھی اور تب سے مسلسل تعلیمی خدمات انجام دے رہی ہے۔ قیام کے ابتدائی دنوں میں، اس ادارے نے علاقے کے نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت تھا جب یہ سکول پورے علاقے میں تعلیم کے حوالے سے ایک نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ نے زندگی کے ہر اہم شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں، چاہے وہ تدریس، فوج، نیوی، ایئر فورس، طب، انجینئرنگ، وکالت، پروفیسری، صحافت یا بینکاری ہو، دریک سکول کے سابق طلبہ ہر میدان میں کامیاب نظر آتے ہیں۔یہ سکول نہ صرف مقامی اور قومی سطح پر نمایاں رہا بلکہ اس کے فارغ التحصیل افراد نے برطانیہ، یورپ، امریکہ، کینیڈا اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ یہ حقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ دریک ہائی سکول میں فراہم کی جانے والی تعلیم نے طلبہ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق آگے بڑھنے میں مدد دی۔تعلیم کے ساتھ ساتھ، کھیلوں کے میدان میں بھی گورنمنٹ ہائی سکول دریک کا نام ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ انٹر سکولز اور بین الاضلاعی مقابلوں میں اس سکول کے کھلاڑیوں نے کئی مرتبہ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ والی بال اور ہاکی میں لگاتار چیمپئن رہنے کا اعزاز بھی اس ادارے کے پاس ہے۔ یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں کے طلبہ کو نہ صرف نصابی سرگرمیوں میں بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جاتے رہے ہیں۔2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعد، یہ ادارہ اپنی افادیت کھو بیٹھا۔ عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور طلبہ کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی آ گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اساتذہ نے بھی اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرانا شروع کر دیا۔ وہ سکول جو کبھی سینکڑوں طلبہ سے آباد ہوتا تھا، صرف 72 طلبہ تک محدود ہو کر رہ گیا۔ میں ذاتی طور پر قیامت خیز زلزلے سے ایک سال بعد 2006 میں دس سال چھ ماہ اور چار دن کے بعد وطن پہنچا تو دوسری ہی صبح اپنے مادر علمی ک زیارت کے لیےچلا گیا مگر صورتحال دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا۔خدا کی قدرت کہ اس ادارے کے ایک ہونہار سابق طالب علم، ظریف احمد، بطور پرنسپل تعینات ہوئے۔ انہوں نے سکول کی بہتری کے لیے انتھک محنت کی۔ سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اپنے ذاتی بچے پرائیویٹ سکول سے نکال کر گورنمنٹ ہائی سکول دریک میں داخل کیے۔ یہ ایک جرات مندانہ قدم تھا جس سے عوام کو ایک مثبت پیغام ملا۔انہوں نے ایک بہترین تدریسی ٹیم تشکیل دی، گھر گھر جا کر والدین کو اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کرانے پر قائل کیا اور سکول میں کھیلوں کی سرگرمیاں بحال کیں۔ ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تقریباً 400 طلبہ اس درسگاہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔پرنسپل ظریف احمد کی کاوشوں سے سکول میں مونٹیسوری سیکشن بھی قائم کیا گیا، جو ابتدائی تعلیم کے لیے ایک شاندار قدم ہے۔ اگر عوام علاقہ تعاون کریں اور اپنی نئی نسل کو سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف راغب کریں تو گورنمنٹ ہائی سکول دریک اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتا ہے اور ایک بار پھر بہترین تعلیمی ادارے کے طور پر ابھر سکتا ہے۔یہ سکول نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے بلکہ علاقے کے لوگوں کے لیے ایک امید، ایک روشنی، ایک مستقبل ہے۔ اگر اساتذہ، والدین اور مقامی انتظامیہ مل کر اس کی بہتری کے لیے کام کریں تو وہ دن دور نہیں جب گورنمنٹ ہائی سکول دریک ایک بار پھر اپنی پرانی شان و شوکت بحال کر لے گا۔میرے مادر علمی نے مجھے جو کچھ دیا، وہ کسی بھی دولت سے بڑھ کر ہے۔ یہ صرف ایک درسگاہ نہیں بلکہ میرا دوسرا گھر ہے، جہاں میں نے زندگی کے بنیادی اصول سیکھے۔ میں امید کرتا ہوں کہ علاقے کے لوگ اس ادارے کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے تاکہ آنے والی نسلیں بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں اور ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔”تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اور ایک اچھا تعلیمی ادارہ کسی علاقے کی خوشحالی کی علامت ہوتا ہے۔”