معیاری اور مفت سرکاری تعلیم اور طبقاتی تقسیم کا مہنگا تعلیمی کاروبار

شئر کریں

تحریر: خواجہ کبیر احمد

Image :Amnesty international

“تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے آپ دنیا کو بدلنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں”.
نیلسن منڈیلا

تعلیم ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور کسی بھی معاشرے کی ترقی کا اہم ستون۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام کئی بحرانوں کا شکار ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے حکومتی عدم توجہی، وسائل کی کمی، اور جدید دور کے تعلیمی تقاضوں سے نابلد اساتذہ کے باعث تنزلی کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ یہ ادارے نہ صرف من مانے طریقے سے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں بلکہ ہر سکول کا اپنا نصاب، یونیفارم، کتابیں، اور دیگر ضروری اشیاء مخصوص برانڈ کے ساتھ خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس بدترین صورتحال میں غریب اور متوسط طبقے کے والدین شدید مالی دباؤ اور نفسیاتی پریشانیوں کا شکار ہیں، کیونکہ وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کے خواب کو پورا کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔یہ نجی تعلیمی ادارے طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر رہے ہیں، جہاں امیر طبقے کے بچے اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کر کے آگے بڑھ رہے ہیں، جبکہ غریب بچوں کے لیے معیاری تعلیم کا حصول ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ اس فرق سے معاشرتی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے، جو مستقبل میں ایک بڑے سماجی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرے، یکساں تعلیمی نصاب نافذ کرے، اور ہر طالب علم کو معیاری اور مفت تعلیم فراہم کرے، تاکہ تعلیم کاروبار کے بجائے خدمت بن سکے۔تعلیم کی فراہمی بنیادی طور پر ایک سماجی خدمت ہے، مگر موجودہ صورتحال میں یہ ایک مہنگا کاروبار بن چکی ہے۔ نجی تعلیمی ادارے اپنی مرضی سے فیسیں مقرر کرتے ہیں اور اضافی اخراجات کے ذریعے والدین کو لوٹ رہے ہیں۔ کتابیں، کاپیاں، یونیفارم، بیگ، اور دیگر اشیاء صرف مخصوص دکانوں سے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جس سے یہ مزید منافع خوری کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں غریب اور متوسط طبقے کے والدین قرض لینے یا دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔اس کے علاوہ، ہر نجی سکول کا الگ نصاب ہے، جس کی وجہ سے تعلیم میں یکسانیت ختم ہو گئی ہے۔ ایک ہی علاقے میں رہنے والے بچوں کو مختلف نصاب پڑھایا جا رہا ہے، جو مستقبل میں ایک بڑے سماجی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں تعلیمی بحران سے نکلنے کا واحد حل معیاری اور مفت سرکاری تعلیم کا فروغ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام سکولوں، چاہے وہ سرکاری ہوں یا نجی، میں ایک ہی نصاب نافذ کرے تاکہ تمام بچوں کو برابر مواقع میسر ہوں اور تعلیمی معیار میں بہتری آئے۔سرکاری تعلیمی اداروں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے، تاکہ طلبہ نجی اداروں پر انحصار کیے بغیر موجودہ دور کے تقاضوں، ضروریات اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین تعلیم حاصل کر سکیں۔سرکاری سکولوں میں قابل، تجربہ کار، اور محنتی اساتذہ کی تعیناتی یقینی بنائی جائے تاکہ طلبہ کو معیاری تعلیم ملے۔نجی تعلیمی اداروں کی من مانی فیسوں، غیر ضروری اخراجات، اور مختلف نصاب کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر ایک مضبوط پالیسی بنائی جائے۔ تعلیم کے شعبے کو اولین ترجیح دی جائے اور اس کے لیے مناسب فنڈنگ کی جائے تاکہ سرکاری ادارے نجی سکولوں کا متبادل بن سکیں اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکیں۔تعلیم کا مقصد علم کی روشنی کو عام کرنا اور قوم کی ترقی کو یقینی بنانا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم، مہنگے تعلیمی کاروبار، اور حکومتی لاپرواہی کی وجہ سے بحران کا شکار ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر سرکاری تعلیمی اداروں کو جدید خطوط پر استوار نہ کیا، تو یہ طبقاتی فرق مزید بڑھتا جائے گا اور غریب بچوں کے لیے ترقی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس مسئلے کا واحد حل مفت، معیاری، اور یکساں تعلیم کا فروغ ہے تاکہ ہر بچہ بلا تفریق اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکے۔اور نیلسن منڈیلا کے۔اس قول کو سچ ثابت کرنے کے قابل ہو سکیں کے “تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے آپ دنیا کو بدلنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں

admin

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *