|

گلگت بلتستان: دیامر میں “حقوق دو، ڈیم بناؤ” تحریک کا آغاز ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے

شئر کریں

چلاس، رپورٹ علینہ ناز چلاسی

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے صدر مقام چلاس میں ہزاروں مقامی لوگوں نے اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا ہے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کو پاکستان کے دیگر شہروں سے ملانے والی شاہراہ بند ہو گئی۔

مظاہرین نے واپڈا کی مبینہ زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف ایک نئی عوامی تحریک “حقوق دو، ڈیم بناؤ” کے تحت احتجاج کا آغاز کر دیا ہے۔ اس تحریک کا مقصد مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ اور دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے انصاف کی فراہمی ہے۔

تحریک کے بنیادی نکات

اس تحریک 31 نکاتی چارٹرڈ میں
مقامی لوگوں کو دیامر بھاشا ڈیم کے فوائد میں مساوی حصہ دلانا، متاثرینِ ڈیم کو مناسب معاوضہ اور متبادل زمین فراہمی، علاقے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور مقامی سطح پر بجلی کے منصوبے شروع کرانے کامطالبہ، دیامر کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہمی، مقامی افراد کو واپڈا میں ملازمتوں میں ترجیحی بنیادوں پر دلانے سمیت دیگر مطالبات شامل ہیں

چلاس جلسہ اور اہم فیصلے

تحریک کے پہلے عوامی جلسے میں ہزاروں مقامی افراد نے شرکت کی۔ اس جلسے میں کئی اہم فیصلے کیے گئے، جن میں سب سے اہم فیصلہ شاہراہ قراقرم کی بندش ہے۔ اس کا مقصد حکومت اور متعلقہ اداروں پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ عوامی مسائل حل کیے جا سکیں۔

مقررین نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیامر کے عوام نے ڈیم کے لیے اپنی زمینیں قربان کیں، مگر اس کے بدلے انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر مطالبات پر فوری عملدرآمد نہ ہوا تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔

ممکنہ اثرات

شاہراہِ قراقرم کی بندش سے گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر حصوں کے درمیان آمد و رفت متاثر ہو سکتی ہے، اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے، خاص طور پر اشیائے خورد و نوش اور ضروری سامان کی ترسیل متاثر ہو سکتی ہے، حکومت پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ جلد از جلد دیامر کے عوام کے مسائل حل کرے۔

حکومت کا ردعمل

تاحال حکومت اور واپڈا کی جانب سے اس احتجاج پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ فوری مزاکرات نا ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔

یہ تحریک دیامر کے عوام کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، جو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ایک منظم جدوجہد کا آغاز کر چکے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ حکومت ان کے مطالبات کو سنجیدگی سے لیتی ہے یا نہیں۔

مصنف کے بارے میں

admin

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *