برفانی تودوں کی تباہ کاریاں اور زندہ دل لوگ
ساجدمنان گُریزیؔ
وادیِ گُریز میں برفانی تودوں کے باعث سینکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں، لیکن افسوس کہ اِن حادثات کا کوئی باضابطہ ریکارڈ موجود نہیں۔ ہمارے گاؤں میں بھی برفانی تودے کئی جان لیوا حادثات کا سبب بنے، مگر اِن کی تفصیلات صرف انہی خاندانوں تک محدود رہیں، جن کے پیارے ان حادثات کا شکار ہوئے۔
28 دسمبر 1990ء ایک سیاہ دن
یہ سرد ترین راتوں میں سے ایک تھی، جب 28 دسمبر 1990ء کو رات صبح تقریباً تین بجے ایک برفانی تودہ ہمارے خاندان پر قیامت بن کر ٹوٹا۔اِس المناک حادثے میں ہمارے خاندان کے آٹھ افراد دب گئے۔ میرے والد محترم، والدہ، دو چچا، ایک کزن، ایک تائی امی اور ان کی دو بیٹیاں اس تباہی کی زد میں آئے۔
جب صبح ہوئی، تو تقریباً سات بجے مقامی لوگوں نے امدادی کار وائیاں شروع کی۔ اللہ کے کرم اور اہلِ دیہہ کی بے پناہ محنت سے ہمارے خاندان کے چھ افراد کو زندہ نکالا گیا، جن میں میرے والد، والدہ، دونوں چچا، ایک کزن اور اس کی بہن شامل تھے۔ مگر تائی امی اور ان کی ایک بیٹی اس حادثے میں جان کی بازی ہار گئیں۔والد محترم اور ولدہ شدید زخمی تھے ان کو 13 جنوری 1991ء کو پاک آرمی نے ہیلی کے ذریعے پھولاوئی سے مظفرآباد سی ایم ایچ (CMH) پہنچایا جہاں چھ ماہ تک زیر علاج رہے۔
ہمارا چار منزلہ گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا، اور اس حادثے کے زخم ہمارے خاندان پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگئے۔
یہ حادثہ میری پیدائش سے چار سال قبل پیش آیا تھا، اور میرے والد نے مجھے اس کی تفصیلات بتائی تھیں۔ صرف ہمارا ہی نہیں، بلکہ ہمارے ایک اور رشتہ دار کا گھر بھی اس برفانی قہر کی نذر ہوگیا، جس میں پانچ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔
1990ء کے بعد بھی کئی المناک حادثات پیش آئے، مگر ان کا کوئی ریکارڈ کہیں درج نہ ہوسکا۔ بس انہی خاندانوں کو معلوم ہوتا ہے، جن کے پیارے ان حادثات میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمارے لوگ ایک دوسرے کے محافظ ہیں۔ میرے گاؤں کی مٹی میں وہ ہمدردی ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے، دشمنی کو فراموش کر کے سب متحد ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ایسا ہی ایک المناک حادثہ
25 فروری 2025ء کو پیش آیا۔
یہ قیامت صغریٰ کا منظر تھا، جب 25 فروری 2025ء کو دودگئی کے مقام پر تین نوجوان برفانی تودے کا شکار ہوگئے۔ ان میں سے ایک نوجوان سے میری ملاقات 2014ء میں ہوئی تھی ان سب کی موت نے دل کو خون کے آنسو رلادیا۔جوانی میں موت انتہا درجے کا کرب بن جاتی ہے۔ ماں باپ کے لیے یہ دکھ ناقابلِ برداشت ہوتا ہے، اور بیوی بچوں کے لیے زندگی ویران ہوجاتی ہے۔
ہمارے گاؤں کے ہمدرد اور جانفروش لوگ، جو 22 کلومیٹر دور تھے، فوراً وہاں پہنچے اور امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ تین دن تک وہ ایک بڑے برفانی تودے سے نبرد آزما رہے، لیکن اچانک مزید برفانی تودے گرنے لگے، جس کے باعث امدادی کار وائیاں ناکام ہوگئی۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی دودگئی نالے کے ساتھ گگئی نالے میں کئی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ 2007ء میں میرے ماموں مقبول (روخان) برفانی تودے کے باعث اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ ان کی لاش تقریباً چھ ماہ بعد ملی تھی، اور جب انہیں پایا گیا، تو ان کی گھڑی پر وقت تین بج رہے تھے۔ انسان کی زندگی تو ختم ہوجاتی ہے، مگر وقت اپنی رفتار سے چلتا رہتا ہے۔
25 فروری کے حادثے نے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان نوجوانوں کی بے وقت موت نے گاؤں کو سوگوار کردیا۔ لیکن میرا گاؤں اپنی ہمدردی، خلوص اور جذبۂ ایثار میں بے مثال ہے۔ یہاں کوئی کسی کو غیر نہیں سمجھتا۔ جب بھی کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے، میرے گاؤں کے لوگ سب کچھ چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اپنے خون کا رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے اپنی جانیں جوکھیوں میں ڈال دیتے ہیں۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب رکھتا ہے اور ہر قسم کے آفات کے مقابلے میں ہمیں مضبوط بناتا ہے۔