بہتا لہو ، ڈوبتی محبت
ساجد منان گریزی
یہ کوئی عام حادثہ نہیں ہے، بلکہ غیرت کے نام پر ہونے والا ایک وحشیانہ قتل ہے۔ ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع بارہ مولہ کی تحصیل اوڑی کے گاؤں تلانجہ میں، جو سیز فائر لائن کے قریب واقع ہے، ایک المناک سانحہ پیش آیا۔سید یاسر حسین جو گاؤں کیمل کوٹ میں اپنے والدین کا اکلوتا سہارا تھا، اور عاسیہ بانو ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ مگر یہ محبت ان کے خاندانوں کے لیے ناقابلِ قبول تھی۔ سازش رچی گئی، دھوکا دیا گیا، اور پھر ایک رات دونوں کو بے رحمی سے قتل کر کے دریائے جہلم میں بہا دیا گیا۔ قاتلوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ یاسر اور عاسیہ نے محبت میں ناکامی کے بعد خودکشی کر لی اور دریائے جہلم میں چھلانگ لگا دی۔ تین دن تک ہندوستانی نیوی کے غوطہ خور دریا میں تلاش کرتے رہے، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔
یہ راز اس وقت کھلا جب دریائے جہلم نے ان کی لاشوں کو پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر کی حدود میں لے جا کر بے نقاب کر دیا۔ مظفرآباد میں جب متعلقہ اداروں نے لاشوں کا معائنہ کیا، تو ایک ہولناک حقیقت سامنے آئی۔
عاسیہ بانو کی ناک اور بال کاٹے گئے تھے، جبکہ یاسر شاہ کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہوئے تھے، جو اس بات کا ثبوت تھے کہ یہ قتل غیرت کے نام پر کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام نے تصدیق کی کہ دونوں کو بے رحمی سے مارا گیا اور پھر دریا میں بہا دیا گیا تاکہ یہ جرم چھپایا جا سکے۔
محبت کے نام پر ہونے والے اس وحشیانہ قتل نے ایک بار پھر سوال کھڑا کر دیا
آخر کب تک سماج اپنی فرسودہ روایات کی آڑ میں معصوم جانیں لیتا رہے گا؟
یاسر اور عاسیہ کی تشدد زدہ لاشیں ۲۲ مارچ ۲۰۲۵ء کو پاکستانی حکام چکوٹھی کے مقام پر کمان پل پر بھارتی حکام کے حوالے کریں گے۔