| | |

بہار کی آمد، سیاحوں کا رخ اور ہماری زمہ داریاں

شئر کریں

تحریر: خواجہ کبیر احمد

بہار کی آمد کے ساتھ ہی جموں کشمیر کے مختلف علاقوں میں خوشگوار موسم کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خوبصورت وادیاں، دلکش جھیلیں اور سرسبز پہاڑ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاکہ قدرتی حسن کا نظارہ کر سکیں اور پُرسکون ماحول میں وقت گزار سکیں۔ ایسے میں، بطور مقامی افراد ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان سیاحوں کا خوش اخلاقی اور مہمان نوازی کے ساتھ استقبال کریں۔جموں کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جو اپنی مہمان نوازی اور روایات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ہماری ثقافت ہمیں سکھاتی ہے کہ مہمان کو عزت و احترام دیا جائے اور اس کے قیام کو سہل بنایا جائے۔ بیرون ملک سے آنے والے سیاح ہمارے ملک کی معیشت اور سیاحت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور ان کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے میں پہل کریں۔ اگر کسی سیاح کو راستہ معلوم نہ ہو یا کوئی اور مشکل درپیش ہو، تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی رہنمائی کریں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ٹورازم کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سیاحوں کو کسی قسم کی مشکلات یا رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد میں آمد مقامی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ ہوٹل، ریستوران، ٹرانسپورٹ اور دیگر کاروباری سرگرمیاں سیاحوں کی آمدورفت کی بدولت ترقی کرتی ہیں۔ تاہم، بعض اوقات کاروباری حضرات زیادہ منافع کمانے کی غرض سے اشیاء اور خدمات کے نرخ بڑھا دیتے ہیں جو کہ سیاحوں کے لیے ناخوشگوار تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مناسب نرخ مقرر کریں تاکہ سیاحوں کو معیاری خدمات فراہم کی جا سکیں اور وہ دوبارہ یہاں آنے کی خواہش ظاہر کریں۔پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں بے شمار خوبصورت سیاحتی مقامات موجود ہیں جو ہر سال ہزاروں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ ان میں گنگا چوٹی، لس ڈنہ، تولی پیر، بنجونسہ جھیل، نیلم ویلی، اور پیر چناسی شامل ہیں۔ یہ تمام مقامات قدرتی حسن سے مالا مال ہیں اور سیاحوں کو ایک ناقابلِ فراموش تجربہ فراہم کرتے ہیں۔ گنگا چوٹی کی بلند و بالا چوٹیوں سے حسین وادیاں دیکھی جا سکتی ہیں، جبکہ بنجونسہ جھیل کی نیلگوں پانی کی سطح پر کشتی رانی ایک منفرد تجربہ ہے۔ تولی پیر اور لس ڈنہ کے سرسبز اور خوبصورت مناظر ہر فطرت پسند کو مسحور کر دیتے ہیں۔سیاحوں کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف کاروباری نفع کے لیے نہیں بلکہ ملک کی ساکھ اور مثبت تشخص کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر سیاح یہاں سے خوشگوار یادیں لے کر واپس جائیں گے، تو وہ اپنے علاقوں میں جا کر جموں کشمیر کی خوبصورتی اور مہمان نوازی کا ذکر کریں گے، جس سے بین الاقوامی سطح پر ہمارے ملک کی ساکھ بہتر ہوگی اور مزید سیاح یہاں آنے میں دلچسپی لیں گے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاحت صرف معاشی فوائد ہی نہیں بلکہ ثقافتی تبادلے اور بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کا بھی ذریعہ ہے۔ جب غیر ملکی سیاح ہمارے رسم و رواج، ثقافت اور طرز زندگی سے روشناس ہوتے ہیں، تو اس سے دونوں قوموں کے درمیان ہم آہنگی اور رواداری بڑھتی ہے۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ثقافت اور روایات کا بھرپور مظاہرہ کریں اور سیاحوں کو ایک مثبت تجربہ فراہم کریں۔مزید برآں، ہمیں سیاحتی مقامات کی صفائی اور قدرتی ماحول کی حفاظت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ سیاحوں کو چاہیے کہ وہ ان جگہوں کو صاف رکھیں اور مقامی قوانین و ضوابط کی پاسداری کریں، جبکہ مقامی افراد کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ قدرتی وسائل کا ناجائز استعمال نہ ہو۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ٹورازم کے فروغ کے لیے مزید سہولیات فراہم کرے، جیسے کہ بہتر سڑکیں، معیاری ہوٹل، اور سیاحتی مقامات پر سیکیورٹی کا بہترین انتظام۔ اگر ہم سیاحوں کے ساتھ بہترین رویہ اپنائیں، ان کا خیال رکھیں اور اپنی ثقافت اور روایات کی پاسداری کریں، تو یہ نہ صرف ہمارے ملک کی معیشت کو فائدہ دے گا بلکہ ہمارے خطے کو ایک پرکشش سیاحتی مقام کے طور پر عالمی سطح پر متعارف کروانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ سیاحت کے فروغ سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ دنیا بھر میں جموں کشمیر کی خوبصورتی اور مہمان نوازی کی شہرت میں بھی اضافہ ہوگا۔

مصنف کے بارے میں

admin

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

One Comment

  1. ماشأاللّٰہ ایک انتہائی اہم موضوع پر بہت ہی عمدہ تحریر لکھی ہے آپ نے محترم خواجہ کبیر احمد صاحب!
    پاکستان کے زیرِ انتظام اس حصۂِ ریاست جموں و کشمیر کی خوبصورتی اور اہم خوبصورت سیاحتی مقامات کا تعارف بھی آپ نے حتی الامکان بہترین انداز میں آپ نے پیش کیا ہے، لیکن! میرے نزدیک جس اہم ترین نکتے پر آپ نے توجہ دلائی ہے وہ ہمارے مقامی لوگوں کی “تہذیبی و ثقافتی اقدار اور مہمان نوازی کی شاندار روایات” کو “عملی اظہار” کے ساتھ ہر حال میں برقرار رکھنے کی ضرورت ہے_ کیونکہ کوئی بھی سیاح کسی بھی سیاحتی مقام کی خوبصورتی سے اتنا متاثر نہیں ہوتا جتنا اسے مقامی لوگوں کا اخلاق و پُرخلُوص محبت بھری مہمان نوازی والا رویَّہ مُتاثر کرتا اور اس کے دل میں بار بار اس مقام پر آنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے_
    ہمارے سامنے پاکستان کے سیاحتی مقام “مری” کے مقامی لوگوں اور ہوٹل مالکان و دکانداران کا سیاحوں کے ساتھ انتہائی بد اخلاقی اور لوٹ مار والے رویّے کی مثال موجود ہے جس کی وجہ سے وہاں آنے اور ٹھہرنے کی خواہش رکھنے والے سیاحوں کی تعداد میں بہت واضح کمی ہو رہی ہے اور اس مقام کی خوبصورتی کے باوجود سیاحوں کی اکثریت وہاں ٹھہرنے کی بجائے اس سے آگے کشمیر کے سیاحتی مقامات پر جانے اور ٹھہرنے کو ترجیح دینے لگی ہے اور مری جیسا خوبصورت مقام محض مقامی لوگوں کے غلط رویَّوں کی وجہ سے اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے_
    دُعا ہے کہ!
    “اللّٰہ تعالٰی ہمارے لوگوں کو اس اہم ترین نقطے کو سمجھنے اور اپنی تہذیبی و ثقافتی مہمان نوازی کی روایات کو زندہ رکھ کر اپنے وطن کی نیک نامی میں چار چاند لگاتے رہنے کی عملی ہمت، بصارت اور بصیرت ہمیشہ عطا فرمائے رکھے”_ (آمین)
    والسَّلام
    دعاگو و خیر اندیش
    سُلطان میر کشمیری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *