بین الاقوامی قوانین، آئینی خلاف ورزیاں اور آزاد کشمیر میں رینجرز فورس کا تنازعہ
تحریر: خواجہ کاشف میر
پاکستان کی مرکزی حکومت کی جانب سے آزاد کشمیر میں نیم فوجی فورس “رینجرز” کی تعیناتی کا فیصلہ حالیہ دنوں میں ایک بڑا سیاسی اور سماجی تنازعہ بن چکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت نے اربوں روپے کے بجٹ کی منظوری دی ہے، جس کے تحت پاک فوج کے افسران کی قیادت میں تربیت یافتہ اہلکاروں کو دہشت گردی اور عوامی احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات کیا جانا ہے۔
یہ اقدام نہ صرف عوامی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا کر رہا ہے بلکہ قانونی، آئینی، تاریخی اور بین الاقوامی تناظر میں بھی کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس فیصلے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ریاستی ادارے آزاد کشمیر کے پرامن عوامی احتجاج کو کسی بڑی مزاحمتی تحریک میں بدلنے کے درپے ہیں۔
مقامی سطح پر عوام کی جانب سے جاری تحریکوں کا بنیادی مقصد حقوق کا حصول ہے، جس میں کسی بھی قسم کی عسکریت پسندی یا بغاوت کا عنصر شامل نہیں۔ تاہم، حکومت کے اس فیصلے نے خدشات کو جنم دیا ہے کہ کیا ریاستی طاقت کے ذریعے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
آزاد کشمیر میں جاری عوامی تحریک، جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت میں چل رہی ہے، اپنی نوعیت کی ایک منفرد اور مضبوط مزاحمتی تحریک بن چکی ہے۔ یہ کمیٹی عوام کے بنیادی مسائل جیسے سستی بجلی، آٹے کی قیمتوں میں کمی، اور صدارتی آرڈیننس کی منسوخی جیسے مطالبات کے گرد گھومتی ہے۔
یہ تحریک نہ صرف کامیاب رہی بلکہ اس نے تمام سیاسی جماعتوں اور گروہوں سے عوام کو آزاد کر دیا ہے۔ اب آزاد کشمیر کے عوام کی اکثریت اسی کمیٹی پر اعتماد کرتی ہے، جبکہ حکمران اور ریاستی ادارے اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان نظر آتے ہیں۔ عوام کی پرامن مزاحمت کو توڑنے کے لیے کئی حربے آزمائے گئے، لیکن تمام کوششیں ناکام ہوئیں، جس کے بعد اب نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کا فیصلہ سامنے آیا ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 47 (1948) اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کے تحت جموں و کشمیر کو ایک متنازعہ خطہ تسلیم کیا گیا ہے، جہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کے تعین کے لیے استصوابِ رائے کا حق دیا گیا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت دو بنیادی اصول اس تناظر میں انتہائی اہم ہیں۔ اقوام متحدہ چارٹر کا آرٹیکل 2(4): کسی بھی ریاست کو یہ اجازت نہیں کہ وہ طاقت کے ذریعے کسی خطے کی خودمختاری یا جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچائے۔ خود ارادیت کا حق: اقوام متحدہ چارٹر کے آرٹیکل 1(2) کے تحت کشمیری عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔
اس قانونی فریم ورک میں آزاد کشمیر میں رینجرز فورس جیسے بیرونی نیم فوجی دستے تعینات کرنا نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے بلکہ کشمیری عوام کے بنیادی حقوق پر بھی ضرب لگاتا ہے۔
اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر کو “غیر فوجی زون” قرار دیا ہے۔ کسی بھی غیر مقامی فورس کی تعیناتی اس عالمی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔
آزاد کشمیر کا عبوری آئین 1974 خطے کو محدود خودمختاری دیتا ہے۔ کسی غیر مقامی فورس کو یہاں تعینات کرنا، مقامی قوانین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 (کشمیر کے خصوصی حیثیت سے متعلق دفعات) کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔
آزاد کشمیر کے عوام ماضی میں بھی غیر مقامی فورسز کے خلاف شدید مزاحمت کر چکے ہیں۔ 1954 میں پنجاب کانسٹیبلری کی ناکامی، 2024 کے مظاہروں میں پولیس کی بربریت، اور 2025 کی جاری تحریک اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی جبر سے مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
اگر یہ فورس عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے استعمال کی گئی، تو یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر (1948) اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہوگی۔
1954 میں جب پنجاب کانسٹیبلری کو آزاد کشمیر میں تعینات کیا گیا تو عوامی مزاحمت اس قدر شدید تھی کہ بالآخر حکومت کو ایک سیاسی حل نکالنا پڑا، اور سردار عبدالقیوم خان کو قیادت سونپی گئی۔ یہ ایک مثال ہے کہ طاقت کا استعمال کبھی بھی پائیدار حل ثابت نہیں ہوتا۔
گزشتہ برس پنجاب کانسٹیبلری کے 600 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا، جس کے نتیجے میں مظفرآباد میں شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ تین نوجوان شہید ہوئے، عوامی املاک کو نقصان پہنچا، اور پورے خطے میں بدامنی کی فضا قائم ہوئی۔
موجودہ عوامی مزاحمت محض چند مطالبات تک محدود نہیں بلکہ یہ تحریک اب ایک بڑے سماجی اور سیاسی تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات میں صرف بجلی اور آٹے کی قیمتیں کم کرنے کی بات نہیں بلکہ خطے کی اقتصادی اور سیاسی خودمختاری کے مسائل بھی زیر بحث آ رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ استصوابِ رائے کے عمل کو تیز کرنے کے لیے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، آزاد کشمیر پولیس اور سول ڈیفنس فورس کو جدید تربیت اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ وہ عوامی امن و امان کو برقرار رکھ سکیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ عوامی نمائندوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مذاکرات کرے اور مسائل کو طاقت کے بجائے سیاسی تدبر سے حل کرے۔مقامی وسائل، خاص طور پر پن بجلی منصوبوں کی آمدنی، کو آزاد کشمیر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔
آزاد کشمیرمیں رینجرز فورس کا قیام صرف ایک سیکیورٹی پالیسی کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک بڑے سیاسی، آئینی اور انسانی حقوق کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ طاقت کے ذریعے عوامی تحریکوں کو دبانا ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس سے مزید انتشار جنم لیتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ادارے طاقت کے بجائے عوامی جذبات، بین الاقوامی قوانین اور انصاف کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو بھی اس معاملے پر فوری توجہ دینی چاہیے، کیونکہ کشمیر کا مستقبل صرف خطے کے لیے نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔