| | |

وادی نیلم، کنڈلشاہی بولی جسے بولنے والے چند افراد ہی ژندہ ہیں

شئر کریں

وادی نیلم، امیرالدین مغل

کشمیر کا معروف سیاحتی علاقہ وادی نیلم کا قصبہ کنڈلشاہی اس حوالے سے بھی مشہور ہے کہ یہاں ایک ایسی بولی صدیوں سے بولی جا رہی ہے جو کہیں اور نہیں بولی جاتی

کنڈلشاہی قصبہ میں صدیوں سے آباد قریشی برادری کے لوگ ہی اس کو بولتے ہیں لیکن اب یہ بولی خاتمے کے قریب ہے صرف چند افراد ہے ژندہ ہیں جو اس کو بول رہے ہیں مقامی لوگ اس بولی کو (راوڑی) بھی کہتے ہیں تاہم یونیسکو کے ریکارڈ میں اس بولی کو (کنڈل شاہی) کے نام سے ہی درج کیا گیا ہے۔

مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ہر سال ختم ہونے والی بولیوں کی فہرست میں یہ بولی بھی شامل ہوتی ہے اس بولی میں بعض الفاظ شینہ زبان کے بھی شامل ہیں

کنڈلشاہی کے رہائشی معمر شخص غلام یاسین اب بھی گھر میں یہ بولی بولتے اور ان کا بیٹا محمد نذیر بھی یہ بولی بول سکتا ہے البتہ محمد نذیر کی اولاد اب بولی سے نابلد ہے غلام یاسین نے اپنے گھر کے صحن میں (کی نیوز) سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا یہ بولی بولنے والے اکثر بڑی عمر کے لوگ فوٹ ہو گئے ہیں پہلے تو کافی لوگ یہ بولی بولتے تھے لیکن رفتہ رفتہ کمی ہوتی گئی اب تو چند لوگ ہے بچے ہیں جو بول سکتے ہیں

محمد نذیر غلام یاسین کے بیٹے ہیں جو اب بھی یہ بول بول رہے ہیں محمد نذیر نے (کی نیوز) کو بتایا کہ ہم نے خود ہی اپنی زبان کو ختم کر دیا ہے بچوں کو سکھائی نہیں اس لئے ان کو اب یہ زبان آتی ہی نہیں اگر سکھاتے تو وہ بھی بولتے

عاشق حسین قریشی بتاتے ہیں کہ چند لوگ ہی باقی بچے ہیں جو یہ بولی بول سکتے ہیں باقی ختم ہو گئے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خاندن سے باہر ہم نے شادیاں کیں باہر سے آنے والی خواتین کو یہ بولی نہیں آتی تھی اس لئے وہ بچوں کو نہیں سکھا سکیں نتیجہ بولی ختم ہونے تک پہنچ گئی

کنڈلشاہی کی رہائشی ایک خاتون جو کہ کٹن سے شادی کرکے کنڈلشاہی آئی نے (کی نیوز) کو بتایا کہ اس کے ساس سسر یہ بولی بولتے تھے لیکن ان کو یہ بولی نہیں آتی تھی اس لئے وہ اپنے بچوں نے نہیں سکھا سکی۔

کنڈلشاہی کے رہائشی قریشی برادری کے کئی نوجوانوں نے (کی نیوز) کو بتایا کہ ان کے گھر میں داد دادی یہ بولی بولتے تھے لیکن ان کے والدین نہیں بولتے اس لئے ان کو نہیں آتی نوجوانوں کو کہنا تھا کہ یہ بولی ہمارا اثاثہ ہے جس سے ہماری تاریخ جڑی ہوئی ہے اس کو بچایا جانا ضروری ہے۔

اس بولی کی کا تو کوئی لٹریچر ہے نا لغت اور نا ہی لکھی یا پڑھی جاتی تھی یہ بھی وہ وجوہات ہیں جس سے یہ بولی معدوم ہونے کے قریب ہے مقامی لوگ سرکاری اور غیر سرکاری ادروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بولی کو بچانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اگر یہ بولی ختم ہو گئی تو ناقابل تلافی ثقافی نقصان ہوگا ۔

مصنف کے بارے میں

admin

شئر کریں

مزید خبریں پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *